لِّلَّذِينَ أَحْسَنُوا الْحُسْنَىٰ وَزِيَادَةٌ ۖ وَلَا يَرْهَقُ وُجُوهَهُمْ قَتَرٌ وَلَا ذِلَّةٌ ۚ أُولَٰئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
جن لوگوں نے اچھے کام کئے ان کے لئے ویسا ہی اچھا بدلہ ہوگا اور اس سے زیادہ [٣٨] بھی۔ ان کے چہروں پر نہ سیاہی چھائے گی [٣٩] اور نہ ذلت یہی لوگ جنتی ہیں۔ جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے
ف 6۔ جنت کی دعوت دینے کے بعد اس کی سعادتوں کا ذکر فرمایا دیا۔ (ابن کثیر) اس آیت کریمیہ میں ” الحسنی“ سے مراد جنت اور اس کی نعمتیں ہیں اور ” زیادہ“ سے اللہ تعالیٰ کا یدار جیسا کہ متعدد صحیح احادیث میں آنحضرتﷺ نے اس کی یہی تفسیر فرمائی ہے مثلاً حضرت صہیب (رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے یہ آیت تلاوت کی اور پھر فرمایا : جب جنتی جنت میں اور دوزخی دوزخ میں داخل ہوجائیں گے تو ایک منادی کرنیوالا پکارے گا۔” اے جنت والو ! اللہ نے تم سے ایک وعدہ کیا تھا وہ اس آج پورا کرنا چاہتا ہے۔ وہ عرض کریں گے وہ کونسا وعدہ ہے کیا اس نے ہمارے معازین (نیک اعمال کے تول) بھاری نہیں کردئیے؟ یا اس نے ہمیں سرخرو بنا کر جنت میں داخل اور آگے سے محفوظ نہیں کردیا۔ اس وقت پردہ اٹھے گا اور اللہ کا دیدار نصیب ہوگا۔ اللہ کی قسم روایت باری تعالیٰ سے زیادہ پسندیدہ اور آنکھوں کو سرور بخشنے والی چیز ان کے لئے کوئی نہ ہوگی۔ (مسلم) اس بنا پر اکثر صحابہ (رض)، تابعین (رض) اور بعد کے علما نے بھی اس کی یہی تفسیر کی ہے۔ (نیز دیکھئے سورۃ القیامہ آیت 32)۔