وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً مِّن بَعْدِ ضَرَّاءَ مَسَّتْهُمْ إِذَا لَهُم مَّكْرٌ فِي آيَاتِنَا ۚ قُلِ اللَّهُ أَسْرَعُ مَكْرًا ۚ إِنَّ رُسُلَنَا يَكْتُبُونَ مَا تَمْكُرُونَ
اور جب کوئی تکلیف پہنچنے کے بعد ہم انہیں اپنی رحمت (کا مزا) چکھاتے ہیں تو پھر یہ ہماری نشانیوں (کی مختلف توجیہات پیش کرکے ان) میں چال بازیاں [٣٣] شروع کردیتے ہیں۔ آپ ان سے کہئے کہ : اللہ بہت جلد تمہاری چال بازیوں کا جواب دے دے گا۔ جو چالیں تم چل رہے ہو یقیناً ہمارے رسول (فرشتے) انہیں لکھتے جاتے ہیں
ف ٤۔ انہیں جھٹلاتے اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔ (ابن کثیر)۔ ف ٥۔ اللہ کی چال سے مراد ہو سزا ہے جو وہ مشرکین کو ان کی مکاریوں اور چالبازیوں پر دیتا ہے اور وہ ہے اس کا انہیں ان کا باغیانہ روش پر چھوٹ دینا اور انہیں اپنے رزق اور نعمتوں سے نوازتے رہنا تاکہ وہ جی بھر کر اپنا نامہ اعمال سیاہ کرتے رہیں۔ ف ٦۔ یعنی جب تمہارا نامہ اعمال خوب سیاہ ہوجائے گا تو اچانک موت کا پیغام آجائے گا اور تم اپنے اعمال کا حساب دینے کے لئے دھر لئے جائو گے۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں : سختی کے وقت آدمی کی نظر اسباب سے اٹھ کر اللہ پر رہتی ہے جب کام بن گیا تو لگا اسباب پر نگاہ رکھنے۔ سو ڈرتا نہیں کہ اللہ پھر ایک اسباب کھڑا کردے۔ اسی تکلیف کا اس کے ہاتھ میں سب اسباب تیار ہیں۔ ایک اسی کی صورت آگے اور فرمائی۔ (موضح)۔