سورة یونس - آیت 15

وَإِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ هَٰذَا أَوْ بَدِّلْهُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور جب ان (کافروں) پر ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں جو ہم سے ملنے کی توقع [٢٢] نہیں رکھتے تو کہتے ہیں: ’’اس قرآن کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس میں [٢٣] تبدیلی کردو‘‘ آپ ان سے کہئے: ’’مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں تبدیلی [٢٤] کر دوں۔ میں تو اسی کی پیروی کرتا ہوں جو میری طرف وحی کی جاتی ہے۔ اگر میں اپنے پروردگار کی نافرمانی کروں تو میں بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا ہوں‘‘

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٣۔ اس آیت میں نبوت پر ان کے تیسرے شہبے کا جواب ہے (کبیر) مطلب یہ ہے کہ مشرکین آنحضرت ﷺ پر تہمت لگاتے کہ یہ قرآن اپنے پاس سے بنا کرلے آتے ہیں۔ اس لئے انہوں نے تجربہ اور امتحان کے لئے یا استھزا کے طور پر آنحضرت ﷺ سے مطالبہ کیا کہ اس قرآن کے علاوہ ایک دوسرا قرآن بھی بنا لائو جس میں ہمارے بتوں کی مذمت نہ ہو اور یا اسی میں کچھ ردوبدل کردو اور ہمارے عقائد و رسوم کے رد اور بتوں کی مذمت پر جو آیات مشتمل میں ان کو نکال دو۔ اللہ تعالیٰ نے اسی کا جواب دیا ہے کہ اے اللہ کے رسولﷺ! آپﷺ انہیں بتا دیں کہ وحی الٰہی کے تابع ہوں اور اپنے پاس سے اس میں کوئی تبدیلی نہیں کرسکتا۔ (رازی)