سورة یونس - آیت 11

وَلَوْ يُعَجِّلُ اللَّهُ لِلنَّاسِ الشَّرَّ اسْتِعْجَالَهُم بِالْخَيْرِ لَقُضِيَ إِلَيْهِمْ أَجَلُهُمْ ۖ فَنَذَرُ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور اگر اللہ بھی لوگوں کو برائی پہنچانے میں ایسے ہی جلدی کرتا جیسے وہ بھلائی کو جلد از جلد چاہتے ہیں تو اب تک ان کی مدت (موت) پوری ہوچکی ہوتی (مگر اللہ کا یہ دستور نہیں) لہٰذا جو لوگ ہم سے ملنے کی توقع نہیں رکھتے انہیں ہم ان کی سرکشی میں بھٹکتے رہنے کے لئے کھلا چھوڑ [١٧] دیتے ہیں۔

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 4۔ یعنی اللہ کا غضب نازل ہو اور وہ فوراً ہلاک ہوجائیں۔ ابتدا سورۃ سے منکرین نبوت کے شبہات اور ان کے جوابات کا سلسلہ چلا آرہا ہے۔ یہاں سے ان کے دوسرے شبہ کا جواب دیا جا رہا ہے وہ کہا کرتے۔ اے اللہ ! اگر محمد ﷺ سچے ہیں تو ہم پر یا تو پتھر کی بارش ہو یا کوئی دوسرا دردناک عذاب آجائے“ اس آیت میں اسی شبہ کا جواب دیا ہے کہ اگر ایسا ہی ہو تو وہ فوراً ہلاک ہوجائیں۔ (کبیر)۔ بعض علماء نے اس کی تفسیر میں یہ بھی لکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت مہربان ہے۔ انسان جب اپنے لئے یا دوسروں کے لئے بھلائی کی دعا کرتا ہے تو اسے جلد قبول فرماتا ہے لیکن جب غصے یا رنج میں آکر اپنے منہ سے اپنے یا اپنے بچوں یا دوسروں کے لئے بددعا کے کلمات نکالتا ہے تو وہ انہیں قبول نہیں فرماتا بلکہ ڈھیل اور مہلت دیتا ہے کہ شاید وہ اپنی اصلاح کرلیں اور اگر ایسا کرے تو لوگ جلد ہی ہلاک ہوجائیں (کبیر۔ ابن کثیر)۔ شاہ صاحب (رح) لکھتے ہیں :” یعنی آدمی چاہتا ہے کہ نیکی کا بدلہ شتاب ملے یا نیک دعا شتاب لگے۔ سو اگر حق تعالیٰ شتاب کرے تو انسان اپنی بدی کے وبال سے فرصت نہ پاوے مگر اللہ تعالیٰ کا دونوں میں تحمل ہے تاکہ نیک لوگ تربیت پاویں اور بد لوگ غفلت میں پڑے رہیں۔ (از موضح)۔ ف 5۔ حضرت جابر سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا :” اپنے لئے، اپنی اولاد کے لئے، اور اپنے مالوں ( غلاموں اور جانوروں) کے لئے بددعا نہ کیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تم کسی ایسے وقت میں بد دعا کردو جس میں اللہ تعالیٰ اسے قبول کرلے اور تم تباہ ہوجائو۔ (ابو دائود)۔