سورة التوبہ - آیت 114

وَمَا كَانَ اسْتِغْفَارُ إِبْرَاهِيمَ لِأَبِيهِ إِلَّا عَن مَّوْعِدَةٍ وَعَدَهَا إِيَّاهُ فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ أَنَّهُ عَدُوٌّ لِّلَّهِ تَبَرَّأَ مِنْهُ ۚ إِنَّ إِبْرَاهِيمَ لَأَوَّاهٌ حَلِيمٌ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ابراہیم نے جو اپنے باپ کے لئے بخشش کی دعا کی تھی تو صرف اس لیے کہ انہوں نے اپنے باپ سے اس بات [١٣٠] کا وعدہ کیا ہوا تھا۔ پھر جب ان پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو وہ اس سے بیزار ہوگئے۔ بلاشبہ ابراہیم بڑے نرم [١٣١] دل اور بردبار (انسان) تھے

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف ٦ حضرت ابراہیم نے اپنے مشرک باپ سے یہ وعدہ اس وقت کیا تھا جب وہ اس سے جدا ہو کر بغرض ہجرت اپنے وطن سے نکلے تھے (دیکھیے سورۃ مریم آیت 47) چنانچہ حسب وعدہ حضرت ابراہیم نے اپنے باپ کے لئے دعائے مغفرت کی بھی۔ (دیکھیے شعرا آیت 42) مگر یہ اس وقت تک کی کیفیت کا ذکر ہے جب تک انہیں امید تھی کہ ان کا باپ شرک سے توبہ کر کے مسلمان ہوجائیگا آخر مایوس ہونے کے بعد برأت کا اعلان فرما دیا۔ (کبیر) اگر کوئی کافر فرشتے دار فوت ہوجائے تو مسلمان اس کی تجہیز و تکفین میں شریک تو ہوسکتا ہے مگر اس کے لئے دعائے مغفرت نہیں کرسکتا۔ (از ابن کثیر) ف ٧ یا خدا کے حضور بہت آہیں بھرنے والے اور حلیم تھے کہ اگر کوئی سختی سے پیش آتا تو آپ نرمی سے جواب دیتے۔ (از ابن کثیر)