إِنَّ اللَّهَ اشْتَرَىٰ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ أَنفُسَهُمْ وَأَمْوَالَهُم بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ ۚ يُقَاتِلُونَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَيُقْتَلُونَ ۖ وَعْدًا عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ وَالْقُرْآنِ ۚ وَمَنْ أَوْفَىٰ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ ۚ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ الَّذِي بَايَعْتُم بِهِ ۚ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اللہ تعالیٰ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال جنت کے [١٢٤] بدلے خرید لیے ہیں۔ وہ اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں۔ تورات، انجیل، اور قرآن سب کتابوں میں اللہ کے ذمہ یہ پختہ وعدہ ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدہ کو وفا کرنے والا اور کون ہوسکتا ہے؟ لہٰذا (اے مسلمانو)! تم نے جو سودا کیا ہے اس پر خوشیاں مناؤ اور یہی بہت بڑی کامیابی ہے
ف 2 منافقین کے بیان سے فارغ ہونے کے بعد اب اس آیت میں جہاد کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ مروی ہے کہ لیلۃ العقبہ میں جب ستر آدمیوں سے آپ نے بیعت لی تو شرط کی کہ ایک اللہ کی عبادت کرنا اور اس کے ساتھ شرک نہ کرنا اور میری ذات کی اس طرح حفاظت کرنا جس طرح تم اپنے جان و مال کی حفاظت کرتے ہو۔ انصار نے کہا اگر ہم یہ کرلیں تو ہمارے لئے کیا ہوگا ؟ فرمایا ” الجنۃ“ کہ تمہارے لئے اس کے بدلہ جنت ہوگی۔ انصار نے اس پر اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور کہا ہمیں منظور ہے اس پر یہ آیت نازل ہوئی : ذکرہ الحافظ فی الفتح (کبیر۔ ابن کثیر)