سورة البقرة - آیت 126

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ اجْعَلْ هَٰذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ أَهْلَهُ مِنَ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُم بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۖ قَالَ وَمَن كَفَرَ فَأُمَتِّعُهُ قَلِيلًا ثُمَّ أَضْطَرُّهُ إِلَىٰ عَذَابِ النَّارِ ۖ وَبِئْسَ الْمَصِيرُ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا کی کہ : ''اے میرے پروردگار! اس جگہ کو امن کا شہر [١٥٤] بنا دے۔ اور اس کے رہنے والوں میں سے جو کوئی اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان لائیں انہیں پھلوں کا رزق عطا فرما۔'' اللہ تعالیٰ نے جواب دیا : ''اور جو کوئی کفر کرے گا تو اس چند روزہ زندگی کا سامان تو میں اسے [١٥٥] بھی دوں گا مگر آخرت میں اسے دوزخ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔''

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 1: اس آیت میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعا کا ذکر ہے جو انہوں نے منصب امامت کے بعد اللہ تعالیٰ کے حضور میں فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ دعا بھی قبول فرمائی اور مکہ معظمہ کو امن والا شہر قرار دے دیا۔ اب حرم کی حدود میں اس کے درختوں کو کا ٹنا۔ شکار کو بھگانا وغیرہ جائز نہیں ہے۔ دوسری دعا میں مومنوں کے لیے پھلوں کے رزق کی دعا کی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ رزق کا معاملہ امامت سے مختلف ہے۔ دنیا میں رزق ہر مومن کافر کو ملے گا مگر آخرت میں کفار کو سخت عذاب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یادرہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے یہ دعا اسمعیل (علیہ السلام) کے مکہ سکونت اختیار کرلینے اور حضرت اسحق (علیہ السلام) کی پیدا ئش کے بعد کی تھی حضرت اسحق (علیہ السلام) حضرت اسمعیل (علیہ السلام) سے تیرہ سال چھوٹے تھے۔