وَإِذِ ابْتَلَىٰ إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ ۖ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا ۖ قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۖ قَالَ لَا يَنَالُ عَهْدِي الظَّالِمِينَ
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) کو ان کے پروردگار نے کئی باتوں [١٤٩] میں آزمایا تو انہوں نے ان سب باتوں کو پورا کردیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ''میں تمہیں سب لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔'' حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا :''کیا میری اولاد سے (بھی یہی وعدہ ہے؟) '' اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ''ظالموں سے [١٥٠] میرا یہ وعدہ نہیں۔''
ف 4 : ان کلمات کی تعیین میں علما کے مختلف اقوال منقول ہیں مناسک حج سنن فطرت دعوت توحید ہجرت وغیرہ سب امور اس کے تحت ذکر کئے گئے ہیں ہوسکتا ہے کہ وہ جملہ آزمائشیں مرادہوں جن پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ثابت قدم اور پکے نکلے سو اللہ تعالیٰ نے ان کو امامت اور پیشوائی کے شرف سےنوازا۔( ابن جریر) امام شوکانی لکھتے ہیں جب ان کلمات کی تعیین کسی مرفوع حدیث سے ثابت نہیں تو بہتر یہ ہے کہ بعد کی آیات کو ان کا بیان قرار دیا جائے۔ (شوکانی) ف 5 : جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے پوری انسانیت کا امام بنادیا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی اولاد کے حق میں دعا فرمائی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے ان کی دعا قبول فرمائی اور قیامت تک کے لیے سلسلہ نبوت ان کی اولاد میں ودیعت کردیا۔ (دیکھئے عنکبوت آیت 27) مگر اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بتا دیا کہ تمہاری اولاد میں ظالم لوگ اس نعمت سے سرفراز نہیں ہو سکیں گے۔ اس سے گمراہ اہل کتاب اور بنی اسمعیل کے مشرکین کو متنبہ کرنا مقصود ہے کہ ان کے عقائد و اعمال خراب ہوچکے ہیں۔ محض حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی اولاد سے ہونا ان کے کام نہیں آسکتا۔