سورة التوبہ - آیت 43

عَفَا اللَّهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

(اے نبی)! اللہ آپ کو معاف کرے، آپ نے انہیں کیوں (پیچھے رہنے کی) اجازت دے [٤٧] دی؟ تاآنکہ آپ پر یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ان میں سے سچے کون ہیں اور جھوٹے کون؟

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 4 ہو ایہ کہ جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تبوک کی طرف روانہ ہونے لگے تو بعض منافیقن نے بناوٹی حیلے بہانے پیش کر کے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مدینہ ہی میں رہنے کی اجازت چاہی۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں سچا سمجھتے ہوئے مدینہ میں رہنے کی اجازت دے دی، اس اجازت دینے پر اللہ تعالیٰ نے اپنی ناراضگی کا اظہار فرمایا لیکن نہایت لطف و کرم کے اند از میں یعنی پہلے معافی کی اطلاع دی اور پھر قصور بیان فرمایا۔ اس میں پیچھے بیٹھنے رہنے والوں کی مذمت بھی ہے۔ ( قر طبی۔ ابن کثیر) یہاں تو اجازت پر عتاب فرمایا ہے مگر سورۃ نو رکی آیت فاذن لمن شئت ( کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جسے چاہیں اجازت دے سکتے ہیں) میں اجازت کی رخصت دے دی ہے۔ ( کبیر) بعض نے لکھا ہے کہ عفا اللہ عنک تعظیما برائے دعا استعمال ہوتا ہے اس سے قبل گناہ کا پایا جا نا ضروری نہیں ہے۔ ( کبیر)