سورة الانفال - آیت 48

وَإِذْ زَيَّنَ لَهُمُ الشَّيْطَانُ أَعْمَالَهُمْ وَقَالَ لَا غَالِبَ لَكُمُ الْيَوْمَ مِنَ النَّاسِ وَإِنِّي جَارٌ لَّكُمْ ۖ فَلَمَّا تَرَاءَتِ الْفِئَتَانِ نَكَصَ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ وَقَالَ إِنِّي بَرِيءٌ مِّنكُمْ إِنِّي أَرَىٰ مَا لَا تَرَوْنَ إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ۚ وَاللَّهُ شَدِيدُ الْعِقَابِ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

جبکہ شیطان نے انہیں ان کے اعمال خوشنما بنا کر دکھلائے اور کہنے لگا کہ ''آج تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور میں تمہارا مددگار ہوں'' پھر جب دونوں لشکروں کا آمنا سامنا ہوا تو الٹے پاؤں پھر گیا اور کہنے لگا : ''میرا تم سے کوئی واسطہ نہیں۔ میں وہ کچھ دیکھ رہا ہوں جو تم نہیں دیکھتے۔ مجھے [٥٣] اللہ سے ڈر لگتا ہے اور اللہ سخت سزا دینے والا ہے''

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 5 یعنی ان کے ذہنوں میں یہ غرور بھر دیا، فالقول مجاز عن الو سو سة۔ ابن جریر (رح) وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ قریش اور بنو کنانہ میں سخت دشمنی تھی جب قریش مسلمانوں سے مقابلہ کے لیے نکلے تو انہیں ڈرہوا کہ کہیں پیچھے سے بنو کنا نه ہم پر حملہ نہ کردیں اس وقت شیطان بنو کنانہ کے ایک سردار سراقہ بن مالک کی صورت میں ان کے ساتھ شریک ہوگیا اور اپنے ساتھ ایک جھنڈا اور شیطا نوں کا ایک لشکر بھی لے آیا۔ اسی وقت قریش سے اس نے وہ بات کہی جو اس آیت میں مذکورہے ( ابن کثیر) واضح رہے کہ شیطان کا انسانی شکل میں آناكوئی مستبعدا نہیں فالقول علی مضاۃ الحقیقی۔ ف 6 یعنی سب کچھ بھول گیا اور بھاگ نکلا۔ ف 7 یعنی مجھے وہ فرشتے نظر آنے لگے ہیں جو مسلمانوں کی مدد کے لیے آئے ہیں اور تمہیں نظر نہیں آرہے، ف 8 صرف اپنا پیچھا چھڑانے کے لیے اس نے یہ بہانہ بنایا ورنہ اس مردود کو اللہ تعالیٰ کا ڈر کہاں تھا َ؟ ( از وحیدی) حدیث میں ہے کہ عرفہ کے دن جب شیطان اللہ تعالیٰ کی رحمت کے نزول اور بڑے بڑے گناہوں کی اس کی طرف سے معافی کو دیکھتا ہے تو اس کی ذات کی انتہا نہیں رہتی لیکن بدر کے دن جب اس نے حضرت جبریل ( علیہ السلام) کو دیکھا کہ وہ فرشتوں کی صفو کو تر تیب دے رہے ہیں تو عرفہ کے دن سے بھی زیادہ ذلیل نظر آنے لگا۔ ( مو طہ )