وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنتَ فِيهِمْ ۚ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ
حالانکہ یہ مناسب نہ تھا کہ اللہ انہیں عذاب دے اور آپ ان میں موجود ہوں اور نہ ہی یہ مناسب تھا کہ اللہ ایسے لوگوں کو عذاب [٣٤] دے جو استغفار کرتے ہوں
ف 6 یعنی جب تک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان میں موجود تھے اللہ تعالیٰ ان پر عذاب بھیجنے والا نہیں تھا کیونکہ اس کا یہ قاعدہ ہے کہ وہ کیس قوم پر اس وقت تک عذاب نازل نہیں کرتا جب تک اس کا رسول ( علیہ السلام) ان میں موجود رہتا ہے۔ چناہ حضرت نوح ( علیہ السلام) ہود، صالح اور حضرت لوط ( علیہ السلام) کے وقعات ہمارے سامنے ہیں۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی یہ بھی اللہ تعالیٰ کا قاعدہ ہے کہ جب تک کوئی قوم اپنے گنا ہوں پر نادم ہو کر استغفار کرتی رہتی ہے وہ اسے ہلاک نہیں کرتا نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے کہ کنہگاروں کو دو چیز پناہ ہیں ایک میرا وجود اور دوسرے استٖغفار، ( مو ضح) منقول ہے کہ مشرکین طواف کے وقت عغرانک غفرانک کہا کرتے تھے یا مقصد یہ ہے کہ ان میں استغفار کرنے والے موجود ہیں یعنی مسلمان اور بعض نے یہ تاویل بھی کی ہے کہ انکے اندر اللہ تعالیٰ کے علم میں ایسے لوگ موجود ہیں جو آئندہ چل کر مسلمان ہو نگے اور اللہ تعالیٰ سے استغفار کرینگے اس لیے ان پر عذاب استیصال نہیں آسکتا جیساکہ انہوں نے دعا کی تھی۔ ( ابن کثیر، کبیر )