وَمَا جَعَلَهُ اللَّهُ إِلَّا بُشْرَىٰ وَلِتَطْمَئِنَّ بِهِ قُلُوبُكُمْ ۚ وَمَا النَّصْرُ إِلَّا مِنْ عِندِ اللَّهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ
یہ بات اللہ نے تمہیں صرف اس لیے بتلا دی کہ تم خوش ہوجاؤ اور تمہارے دل [١٢] مطمئن ہوجائیں ورنہ مدد تو جب بھی ہو اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے یقیناً اللہ بڑا زبردست اور حکمت والا ہے
ف 4 آیت کے الفا ظ سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ فرشتوں نے خود لڑنے میں کوئی محض اس لیے بھیجا ہے تھا کہ ان کے حوصلے بلند ہوں اور انہیں اطمینان رہے کہ انکی مدد کے لیے فرشتے موجود ہیں لیکن یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ صحیح مسلم کی ایک حدیث سے صراحتہ معلوم ہوتا ہے کہ فرشتوں نے لڑائی میں بھی حصہ لیا۔ اگرچہ غزوہ بد رکے علاوہ کسی دوسری جنگ میں انہوں نے لڑکر حصہ نہیں لیا) حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہی کہ جنگ بد کے موقع پر ایک انصاری مسلمان کسی کافر کا پیچھا کر رہا تھا کہ اچانک اس نے اوپر سے ایک کوڑے کی آواز سنی اور ایک گھڑ سوارنے اپنے گھوڑے کو پکارا حیزوم ! آگے بڑھو۔ اس نے اپنے سامنے کافر کو دیکھا کہ وہ لڑکھڑا کر گرا اور گرتے ہوئے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا، اس انصاری نے اس واقعہ کا آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے تذکرہ کیا تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تم نے سچ کہا یہ تیسرے اسمان کی مدد تھی۔ ( ابن کثیر، بحوالہ صحیح مسلم ) ف 5 یعنی یہ سمجھو کہ تمہیں جو فتح نصیب ہوئی ان فرشتوں کی وجیہ سے ہوئی حقیقت میں مدد اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے وہ چاہتا تو فرشتوں کے بغیر ہی تمہیں فتح نصیب کردیتا مگر جہا کی مشر وعیت سے تمہارے ایمان کا امتحان مقصود ہے شہادت سے تمہارے در جے بلند اور کافروں کا تمہارے ہاتھ سے ذلیل کرنا ہے۔ امم سابقہ میں جو امت تکذیب کرتی اس پر کی طرح کا عذاب نازل ہوجاتا، حضرت نوح ( علیہ السلام) سے لے کر فرعو ن کے غرق ہونے تک یہی سلسلہ قائم رہا آخر کار جب جو موسیٰ ( علیہ السلام) پر تورات نازل ہوئی تو جہاد شروع ہو اور اس کے بعد یہی طریقہ جاری ہے۔، ( ابن کثیر) جس رات کی صبح کی لڑائی ( جنگ بدر) ہونے والی تھی صحابہ (رض) کرام خونب سوئے حال نکہ دشمن کی فکر لگی ہوئی تھی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے نیند بھیج دی تاکہ تازہ دم ہوجائیں اور دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کریں، حضرت علی (رض) فرماتے ہیں بدر کر لڑائی میں مقداد بن (رض) بن اسود کے سو کوئی سوار نہ تھا تمام صحابہ (رض) رات کو سئے پڑے رہے بجز آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک درخت کے نیچے نماز پڑتھے اور اللہ تعالیٰ کے حضور آہ ورازی کرتے رہے یہاں تک کہ صبح ہوگئی۔ ( ابو یعلی )