خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ
(اے نبی!) درگزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے، معروف کاموں کا حکم دیجئے۔ اور جاہلوں [١٩٧] سے کنارہ کیجئے
ف 9 خذ العفو، یعنی حتی الو سع تحمل اور صبر سے کام لو اور یہاں پر آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے واسطہ سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو دعوت اسلامی کافر یضہ سرانجام دے رہاہو جیسے فرمایا وجا دلھم بالتی ھی احسن ولو کنت فظاغلیظ القلب ال ان فضو امن حولک ( کبیر) اس کے بعد وامر بالعرف کے حک سے اشارہ فرمایا کہ عفودر گذر کا تعلق صرف حسن اخلاق کی حد تک ہے ورنہ اقامت حدود میں کسی قسم کی چشم پوشی ہو سکتی، ( ایضا) ف 10 یعنی اگر معاندا رویہ اختیار کریں اور بے فائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے خامشی اختیار کرلو خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنادیں شعبی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی صلعم نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے اس کا مطلب دریافت کیا انہوں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے جو شخص بھی آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر زیادتی کرے اسسے در گذر فرمائیں اور جو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو محروم کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے دیں اور جو قطع رحمی کرے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس سے صلح رحمی کریں ( ابن جریر) امام جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں مکار اخلاق کے مو ضوع پر اس سے جامع تر قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے۔ (کبیر) بعض علما نے کا خیال ہے کہ خذالعفو کا حکم آیت قتال سے منسو خ ہے۔ ابن جریر نے اسی کو تر جیح دی ہے۔ نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 109، ( ابن کثیر )