سورة الاعراف - آیت 199

خُذِ الْعَفْوَ وَأْمُرْ بِالْعُرْفِ وَأَعْرِضْ عَنِ الْجَاهِلِينَ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

(اے نبی!) درگزر کرنے کا رویہ اختیار کیجئے، معروف کاموں کا حکم دیجئے۔ اور جاہلوں [١٩٧] سے کنارہ کیجئے

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 9 خُذِ ٱلۡعَفۡوَ ، یعنی حتی الو سع تحمل اور صبر سے کام لو اور یہاں پر آنحضرت (ﷺ) کو حسن اخلاق کی تعلیم دی ہے اور آنحضرت (ﷺ) کے واسطہ سے ہر وہ شخص مخاطب ہے جو دعوت اسلامی کافر یضہ سرانجام دے رہاہو جیسے فرمایاİ‌وَجَٰدِلۡهُم بِٱلَّتِي هِيَ أَحۡسَنُۚĬ İوَلَوۡ كُنتَ فَظًّا ‌غَلِيظَ ٱلۡقَلۡبِ لَٱنفَضُّواْ مِنۡ حَوۡلِكَĬ ( کبیر) اس کے بعد وَأۡمُرۡ ‌بِٱلۡعُرۡفِ کے حکم سے اشارہ فرمایا کہ عفوودر گذر کا تعلق صرف حسن اخلاق کی حد تک ہے ورنہ اقامت حدود میں کسی قسم کی چشم پوشی نهیں ہو سکتی، ( ایضا) ف 10 یعنی اگر معاندانه رویہ اختیار کریں اور بے فائدہ تکرار کریں تو بجائے الجھنے کے خاموشی اختیار کرو خواہ وہ اس خاموشی کو کوئی معنی پہنادیں۔ شعبی کہتے ہیں کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبی (ﷺ) نے حضرت جبرئیل ( علیہ السلام) سے اس کا مطلب دریافت کیا انہوں نے جواب دیا’’ اللہ تعالیٰ نے آپ (ﷺ) کو حکم دیا ہے جو شخص بھی آپ (ﷺ) پر زیادتی کرے اس سے در گذر فرمائیں اور جو آپ (ﷺ) کو محروم کرے آپ (ﷺ) اسے دیں اور جو قطع رحمی کرے آپ (ﷺ) اس سے صلح رحمی کریں ( ابن جریر) امام جعفر صادق (رح) فرماتے ہیں مکار م اخلاق کے مو ضوع پر اس سے جامع تر قرآن میں کوئی آیت نہیں ہے۔ (کبیر) بعض علما کا خیال ہے کہ خُذِ ٱلۡعَفۡوَ کا حکم آیت قتال سے منسو خ ہے۔ ابن جریر نے اسی کو تر جیح دی ہے۔ نیز دیکھئے سورۃ بقرہ آیت 109، ( ابن کثیر )