يَسْأَلُونَكَ عَنِ السَّاعَةِ أَيَّانَ مُرْسَاهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ رَبِّي ۖ لَا يُجَلِّيهَا لِوَقْتِهَا إِلَّا هُوَ ۚ ثَقُلَتْ فِي السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ لَا تَأْتِيكُمْ إِلَّا بَغْتَةً ۗ يَسْأَلُونَكَ كَأَنَّكَ حَفِيٌّ عَنْهَا ۖ قُلْ إِنَّمَا عِلْمُهَا عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ قیامت کب قائم ہوگی؟ آپ ان سے کہئے'': یہ بات تو میرا پروردگار ہی جانتا ہے۔ وہی اسے اس کے وقت پر ظاہر کرے گا اور یہ آسمانوں اور زمین کا بڑا بھاری [١٨٦] حادثہ ہوگا جو یکدم تم پر آن پڑے گا۔ لوگ آپ سے تو یوں پوچھتے ہیں جیسے آپ ہر وقت اس کی ٹوہ میں لگے ہوئے [١٨٧] ہیں۔ ان سے کہئے کہ اس کا علم اللہ ہی کو ہے مگر اکثر لوگ (اس حقیقت کو) نہیں جانتے
ف 14 تو حیدو نبوت اور قضا ق دقدر پر کلام کے بعد بعث ماہ بعد الموت پر گفتگو ہو رہی ہے کیونکہ قرآن میں یہ امور اربعہ اصول وکلیات کی حیثیت رکھتے ہیں۔ ( رازی ) ف 1 اس کے ایک معنی تو یہ ہیں کہ زمین آسمان اس کی دہشت سے کا نپتے ہیں یا یہ کہ کسی مقرب فرشتہ اور نبی مرسل ( علیہ السلام) کو اس کے وقوع کا علم نہیں ہوسکتا۔ ( رازی) حدیث جبر یل ( علیہ السلام) میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے صرف اشراط ساعت بنان فرمائی ہیں اور دوسری روایات میں نزول عیسیٰ ٰ ( علیہ السلام) کو آثار قیامت میں سے قرار دیا ہے مگر ان کے وقو ع کے بعد بھی قیامت اچانک اور دفعتہ واقع نہیں ہوگی، ( کبیر) ف 4 کہ قیامت کے وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے یہ لوگ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے باربار اس طرح پو چھتے ہیں ہیں جیسا کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کرید اور جستجو کے بعد اس کا پورا علم حاصل کرلیا ہے۔