فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ وَرِثُوا الْكِتَابَ يَأْخُذُونَ عَرَضَ هَٰذَا الْأَدْنَىٰ وَيَقُولُونَ سَيُغْفَرُ لَنَا وَإِن يَأْتِهِمْ عَرَضٌ مِّثْلُهُ يَأْخُذُوهُ ۚ أَلَمْ يُؤْخَذْ عَلَيْهِم مِّيثَاقُ الْكِتَابِ أَن لَّا يَقُولُوا عَلَى اللَّهِ إِلَّا الْحَقَّ وَدَرَسُوا مَا فِيهِ ۗ وَالدَّارُ الْآخِرَةُ خَيْرٌ لِّلَّذِينَ يَتَّقُونَ ۗ أَفَلَا تَعْقِلُونَ
پھر ان کے بعد ناخلف لوگ ان کے جانشین ہوئے جو کتاب کے وارث [١٧١] بن کر اسی دنیا کی زندگی کا مال سمیٹنے لگے اور کہتے یہ تھے کہ ’’ہمیں معاف کردیا جائے گا‘‘ اور اگر ویسا ہی دنیا کا مال پھر ان کے سامنے آئے تو پھر اسے لے لیتے ہیں۔ کیا ان سے کتاب میں یہ عہد نہیں لیا گیا تھا کہ وہ حق بات کے سوا اللہ سے کوئی بات منسوب نہ کریں گے؟ اور یہ بات وہ پڑھتے بھی رہے جو کتاب میں مذکور تھی اور آخرت کا گھر تو اللہ سے ڈرنے والوں ہی کے لئے بہتر ہے۔[١٧٢] کیا تمہیں اتنی بھی سمجھ نہیں؟
ف 7 اس لیے کہ ہم اسے کے لاڈ لے بیٹے اور اس کے بر کزیدہ ابنیا کی اولاد ہیں۔ ف 8 یعنی گناہ کرنے کے بعد نہ وہ شر مندہ ہوتے ہیں اور نہ ان میں تو نہ کا جذبہ پیدا ہوتا ہے بلکہ گناہوں پر ان کی جرات دبے باکی دن بدن بڑھتی ہی جاتی ہے، چنانچہ ایک مرتبہ رشوت لینے کے بعد جو نہی انہیں دوبارہ رشورت لینے کے بعد جونہی انہیں دوبارہ رشوت کا موقع ملتا ہے وہ بلا جھجک اسے قبول کرلیتے ہیں، ان کے علما کایہ حال ہے لوگوں کو غلط مسئلے باتے ہیں اور امید رکھتے ہیں کہ ہماری بخشش ہوجائے گی حالانکہ پھر اسی کا ام کو حاضر رہتے ہیں۔ بخشش کی امید تو تب ہے جب پچھلی سرکشی اور گناہوں سے باز رہیں۔ ( کذافی ابن کثیر) ف 9 یعنی یہ خوب جانتے ہیں کہ اللہ نے توراۃ میں کہیں یہ نہیں فرمایا کہ تم جو گناہ چاہو کرتے رہو تمہیں بخش دو گا مگر ان کی جرات اور بے خوفی کایہ علم ہے کہ گناہ بھی کئے جاتے ہیں اللہ کی آیات کو بیچ کر دنیا بھی کمائے جاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی وہ باتیں بھی منسوب کئے جاتے ہیں جو اس نے کبھی نہیں کہیں۔ ( کذافی القرطبی)