وَإِذْ قَالَتْ أُمَّةٌ مِّنْهُمْ لِمَ تَعِظُونَ قَوْمًا ۙ اللَّهُ مُهْلِكُهُمْ أَوْ مُعَذِّبُهُمْ عَذَابًا شَدِيدًا ۖ قَالُوا مَعْذِرَةً إِلَىٰ رَبِّكُمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ
اور (وہ وقت بھی یاد کرو) جب ان میں سے کچھ لوگوں نے دوسروں سے کہا : ’’تم ایسے لوگوں کو کیوں نصیحت [١٦٨] کرتے ہو جنہیں اللہ ہلاک کرنے والا یا سخت سزا دینے والا ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا : اس لیے کہ ہم تمہارے پروردگار کے ہاں معذرت کرسکیں اور اس لئے بھی کہ شاید وہ نافرمانی سے پرہیز کریں
ف 6 یعنی اس بستی کے نیک لوگوں میں سے ایک گروہ نے ان لوگوں سے کہا جو اس حیلہ سازی سے شکار کرنے والوں کو منع کرتے تھے جمہور مفسرین (رح) کا خیال ہے کہ اس بستی کے لوگ تین گروہوں میں تقسیم ہوگئے تھے ایک ظالم جو حیلہ سازی سے ہفتہ کے دن مجھلیوں کا شکار کرتے تھے، دوسرا گروہ جو ان کے ایسا کرنے سے منع کا شکار کرتے تھے، دوسرا گروہ وہ جو ان کی ایسا کرن سے منع کرتا تھا اور تیسرا گروہ وہ جو خود اگرچہ نیک تھا لیکن دوسروں کو برائی سے منع نہیں کرتا تھا۔ پس یہاں امتہ سے مراد یہی تیسرا گروہ ہے۔ ( ابن کثیر) ف 7 یعنی کیوں ان کے سمجھانے میں وقت ضائع کرتے ہو جب کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے دنیا میں ہلاکت اور آخرت میں عذاب لکھ دیا ہے تو تم انہیں کیسے بچالو گے مطلب یہ ہے کہ خود نیکی کرتے رہو اور انہیں ان کے حال پر چھوڑ دو ( مازخوذ ابن کثیر) ف 8 ایسانہ ہو کہ وہ ہمیں بھی اس جرم میں پکڑ لے تاکہ تم امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے فریضہ سے دست کش ہو کر کیوں بیٹھ گئے تھے،