سورة الاعراف - آیت 163

وَاسْأَلْهُمْ عَنِ الْقَرْيَةِ الَّتِي كَانَتْ حَاضِرَةَ الْبَحْرِ إِذْ يَعْدُونَ فِي السَّبْتِ إِذْ تَأْتِيهِمْ حِيتَانُهُمْ يَوْمَ سَبْتِهِمْ شُرَّعًا وَيَوْمَ لَا يَسْبِتُونَ ۙ لَا تَأْتِيهِمْ ۚ كَذَٰلِكَ نَبْلُوهُم بِمَا كَانُوا يَفْسُقُونَ

ترجمہ تیسیر القرآن - مولانا عبدالرحمن کیلانی صاحب

اور ان سے اس بستی کا حال بھی پوچھئے جو سمندر کے کنارے واقع تھی۔ وہ لوگ سبت (ہفتہ) کے دن احکام الٰہی کی خلاف ورزی کرتے تھے۔ ہفتہ کے دن تو مچھلیاں بلند ہوہو کر پانی پر ظاہر ہوتی تھیں اور ہفتہ کے علاوہ باقی دنوں میں غائب رہتی تھیں۔ اسی طرح ہم نے انہیں ان کی نافرمانیوں کی وجہ سے آزمائش [١٦٧] میں ڈال رکھا تھا

تفسیر اشرف الحواشی - محمد عبدہ الفلاح

ف 3) فریب اور حیلہ سازی سے مچھلیوں کا شکار کرتے تھے انہیں حکم تو یہ تھا کہ اس دن کی تعظیم کریں اور اس میں شکار وغیرہ سے بار رہیں مگر انہوں نے دریا کے کنا رے سے پانی کاٹ کر حوض تعمیر کرلیے جب ہفتہ کے دن ان حوضوں میں مچھلیاں آجاتیں تو ان کا راستہ بند کردیتے اور اتوار کے دن پکڑ لیتے اس سے معلوم ہوا کہ کسی حرام کارتکاب کرنے کے لیے حیلہ سازی بھی حرام ہے حدیث میں ہے لا تر تکبو اما ارتکب الیھود فتسحلوا محارم اللہ باونی الحیل کہ یہود کی طرح شریعت میں حیلے نکال کر اللہ تعالیٰ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال مت سمجھو۔ ( ابن کثیر) بائیل کے بیانات سے معلوم ہوتا ہے کہ سبت کے دن ان کو مکمل طور پر کارو بار بند رکھنے کا حکم تھا مگر وہ اس کی خلاف ورزیاں کرتے رہتے تھے۔ ف 4 یا پانی سے سر نکالے ہوئے آجاتیں، ف 5 یعنی ان کے فسق کی وجہ سے ان پر یہ سختی کی گئی تھی،۔