الَّذِينَ يَتَّبِعُونَ الرَّسُولَ النَّبِيَّ الْأُمِّيَّ الَّذِي يَجِدُونَهُ مَكْتُوبًا عِندَهُمْ فِي التَّوْرَاةِ وَالْإِنجِيلِ يَأْمُرُهُم بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَاهُمْ عَنِ الْمُنكَرِ وَيُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبَائِثَ وَيَضَعُ عَنْهُمْ إِصْرَهُمْ وَالْأَغْلَالَ الَّتِي كَانَتْ عَلَيْهِمْ ۚ فَالَّذِينَ آمَنُوا بِهِ وَعَزَّرُوهُ وَنَصَرُوهُ وَاتَّبَعُوا النُّورَ الَّذِي أُنزِلَ مَعَهُ ۙ أُولَٰئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ
جو لوگ اس رسول کی پیروی [١٥٤] کرتے ہیں جو نبی امی ہے، جس کا ذکر وہ اپنے ہاں تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ وہ رسول انہیں نیکی کا حکم دیتا اور برائی [١٥٥] سے روکتا ہے، ان کے لئے پاکیزہ چیزوں کو حلال اور گندی چیزوں [١٥٦] کو حرام کرتا ہے، ان کے بوجھ ان پر سے اتارتا ہے اور وہ بندشیں کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے [١٥٧] تھے۔ لہٰذا جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی حمایت اور مدد کی اور اس روشنی کی پیروی کی جو اس کے ساتھ [١٥٨] نازل کی گئی ہے تو یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں
ف 11 یعنی اس زمانہ میں میری رحمت کے خاص طو پر مستحق وہ ہیں۔۔۔۔۔ ( قر طبی) ف 12 یہاں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات تسعہ مذکور ہیں اور ان پڑھ نبی لقط سے یہاں اس طرف اشارہ ہے کہ ان پڑھ ہونے کے باوجود آپ میں جو کمال علم پایا جاتا ہے وہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ایک بہت بڑا معجزہ ہے۔ چنانچہ علوم نبوت جو احادیث کی شکل میں جود ہیں ان کو پڑھ کر عرب جیسی ان پڑھ قوم دنیا کی انتہائی تعلیم یافتہ اور سب ترین قوموں کی رہنما بن گئی۔ ف 13 آج بھی توراۃ وانجیل میں وہ مقامات موجود ہیں جن میں بنی سرائیل کو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی آمد کی بشارت دی گئی ہے، مثال کے طور پر دیکھئے استثنا باب 18 آیت 17۔22) باب 32۔ آیت 21) باب 3 آیت 1۔2 متی۔ باب 4 آیت 23۔12 وغیرہ مزید تفصیل کے لیے دیکھئے تفسیر المنار) ف 14 یعنی جو طیب چیزیں ان پر ان کے گناہوں کی وجہ سے حرام کردی گئی تھیں یا انہوں نے خود انہوں اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، ( جیسے اونٹ گو شت اور چربی وغیرہ) وہ انیں حلال قرار دیتا ہے اور جب ناک چیزوں کو انہوں نے حلال قرار دے رکھا ہے تھا۔ ( جسے سوہ کا گوشت اور شراب وغیرہ) وہ انہیں حرام قرار دیتا ہے اور پھر جو چیزیں بھی شریعت نے حلال قراردی ہے وہ طیب ہی ہے اور جو حرام قرار دی ہے وہ خبیث ہی ہے۔ ( ابن کثیر ) ف 15 یعنی ان کے علمانے ان پر خو خود ساختہ پاپند یاں لا کر دین میں تنگی پیدا کر رکھی تھی۔ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان پاپند یوں کو توڑ کر دین میں آسانی پیدا کرتے ہیں۔ احادیث میں ان پا بندوں کو توڑ کر دین میں آسانی پیدا کرتے ہیں، احادیث میں ان سہولتیں کو تفصیل سے ذکر ملتا ہے جو اسلام میں امت محمد ی ( علیہ السلام) کو خاص طور حاصل ہوتی ہیں۔ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو مع کلمات سے ان کو بیان بھی فرما دیا ہے جیسے فرمایا بعثت بال حنیفتیہ المحتہ کہ مجھے آسان حنیفی دین دے کر بھیجا گیا ہے، نیز فرمایا الدین یسر کہ دین میں آسانی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں ہے لا ضررو لا ضر اوفی الاسلام کہ اسلام میں مضرفت رسانی بالکل ممنوع ہے۔ نیز آپ صحا بہ کرام کو ہمیشہ تلقین فرماتے ایسر و الا تعبر وا کہ احکام میں سہولت کو سامنے رکھو تنگی پیدا نہ کرو۔ ( ابن کثیر، کبیر ) فوائد صفحہ ہذا ف 1 یعنی قرآن اور سنت دونوں پر ) ( ابن کثیر کبیر )