الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِالْغَيْبِ وَيُقِيمُونَ الصَّلَاةَ وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنفِقُونَ
جو غیب [٤] پر ایمان لاتے ہیں، نماز [٥] قائم کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں [٦] دے رکھا ہے، اس میں سے (اللہ کی راہ میں) خرچ کرتے ہیں
ف 5 ایمان تصدیق کے معنی میں استعمال ہوتا ہے اور اصلاح شریعت میں قول وفعل اور اقرار کے مجموعہ کو ایمان کہا جاتا ہے ابن ماجہ) اور یہاں الغیب سے وہ حقائق مراد ہیں جو عقل وحواس کی رسائی سے ماورا ہیں۔ مثلا ذات باری تعالیٰ و حی الہی عذاب قبر اور جملہ امور آخرت (قرطبی) پس اہل تقوی کی صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کے بیان پر اعتبار کرتے ہوئے ان حقائق پر ایمان رکھتے ہیں اور عقل و حواس سے ادراک و احساس کا مطالبہ نہیں کرتے۔ ف 6 یعنی اس کو صحیح اوقات میں ارکان وسنن کی حفاظت اور خشوع کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور نماز باجماعت میں صفیں سید ھی باندھتے ہیں کند ھے سے کندھا پیر سے پیر اور ٹخنے سے ٹخنہ ملا کر کھڑے ہوتے ہیں حدیث میں ہے۔ تسویتہ الصفوفہ من اقامتہ الصلوہ ( بخاری) ف 7 ی نفقہ عام اور جملہ حقوق مالی کو شامل ہے۔