فَإِذَا جَاءَتْهُمُ الْحَسَنَةُ قَالُوا لَنَا هَٰذِهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَطَّيَّرُوا بِمُوسَىٰ وَمَن مَّعَهُ ۗ أَلَا إِنَّمَا طَائِرُهُمْ عِندَ اللَّهِ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَهُمْ لَا يَعْلَمُونَ
پھر جب انہیں کوئی بھلائی پہنچتی تو کہتے کہ ہم اسی کے مستحق [١٢٧] تھے اور جب کوئی تکلیف پہنچتی تو اسے موسیٰ اور اس کے ساتھیوں کی نحوست بتلاتے۔ حالانکہ نحوست تو اللہ کے ہاں ان کی اپنی تھی۔ لیکن ان میں اکثر لوگ یہ بات سمجھتے نہ تھے
ف 9 مگر ان شدائد کے بعد رفاہیت اور خوشحالی آتی تو بجائے اس کے اللہ تعالیٰ کا احسان سمجھ کر شکر گزاری کریں لنا ھذہ کہتے یعنی یہ ہمارے حسن انتظام کا نتیجہ ہے۔ ف 10 تمام مفسرین کے نزدیک یہاں التطیر بمعنی تشام بمعنی نحوست ہے یعنی وہ کہتے کہ ان کی نحوست سے ہم پر آفت آئی ہے۔ ف 11 یعنی اس نحوست اصل سبب تو اللہ تعالیٰ کے علم میں ہے اور خیر وشر جو کچھ ان کو پہنچ رہا ہے تمام اللہ تعالیٰ کی قضاوقدرت سے ہے جو ان کے اعمال کے سبب ان کے حق میں لکھا ہے جاچکا ہے۔ (کذافی الکبیر) ف 12 کہ خیر وشرسب کا مالک اللہ تعالیٰ ہے اس نے جو کچھ تقدیر میں لکھا ہے وہ ضرور ہو کر رہتا ہے کسی کی نحوست اور شومی کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے مگر عوام ہیں کہ خیر وشر کو اسباب ظاہری کی طرف نسبت کردیتے ہیں اور یہ سراسر جہا لت ہے۔ ( کبیر ) شاہ صاحب فرماتے ہیں شومی قسمت بد ہے سوا للہ تعالیٰ کی تقدیر سے ہے برائی اور بھلائی کا اثر آخرت میں ہوگا اس کا جواب یہ نہیں فرمایا کہ شومی انکے کفر سے تھی کیونکہ کافر بھی دنیا میں عیش کرتے ہیں۔ اصل حقیقت تھی، سو فرمائی کہ دنیا کے احوال مو قوف بہ تقدیر ہیں۔ (از مو ضح )