وَمَا تَنقِمُ مِنَّا إِلَّا أَنْ آمَنَّا بِآيَاتِ رَبِّنَا لَمَّا جَاءَتْنَا ۚ رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ
اور ہماری کون سی بات تجھے بری لگی ہے بجز اس کے کہ جب ہمارے پاس پروردگار کی نشانیاں آگئیں تو ہم ان پر [١٢٢] ایمان لے آئے'' (پھر انہوں نے دعا کی کہ) ’’اے ہمارے پروردگار! ہم پر صبر [١٢٣] کا فیضان کر اور اس حال میں موت دے کہ ہم فرمانبردار ہوں‘‘
ف 1 تقم ( ض ع) کے معنی کسی شے سے بہت زیادہ نفرت اوکراہت کا اظہار کرنے کے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ہمارا اگر کوئی گناہ ہے تو صرف یہ ہے کہ ہم اپنے پروردگار پر ایمان لے آئے ہیں ( ابن عباس (رض) حقیقت یہ ہے کہ کسی فن کو جتنا اس فن والا جانتا ہے کوئی دوسرا نہیں جان سکتا، چنانچہ ان جادوں گروں نے جب حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے معجزہ کو دیکھا تو فورا سمجھ گئے کہ یہ ہرگز جادو نہیں ہوسکتا بلکہ یہ سراسر خدائی معجزہ ہے اس لے ہو اس پر فورا ایمان لے آئے اور ان کے ایمان میں اس قدر بختگی تھی کہ جان تک کی پرواہ نہ کی، مشہور قول کے مطابق وہ قتل کردیئے گئے۔ چنانچہ حضرت عبد اللہ بن عباس (رض) فرماتے ہیں کہ شروع دن میں وہ جادو گر تھے اور پھر دن کے آخری حصہ میں شہدا میں داخل ہوگئے ( ابو الفدار اور حضرت ابن عباس سے یہ بھی مروی ہے کہ فرعون نے ان کے الٹے ہاتھ پاؤں کٹواڈالے مگر انہوں نے ایمان کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جیسا کہ ان کی اس دعا سے بھی معلوم ہوتا ہے یہ اللہ تعالیٰ کی توفیق ہے جسے چاہے اپنی توفیق سے نواز دے، فتح البیان )