سورة الاعراف - آیت 59

لَقَدْ أَرْسَلْنَا نُوحًا إِلَىٰ قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ اعْبُدُوا اللَّهَ مَا لَكُم مِّنْ إِلَٰهٍ غَيْرُهُ إِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ

ترجمہ تیسیرالقرآن - مولانا عبد الرحمن کیلانی

ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا : ''اے میری قوم! اللہ کی عبادت کرو، جس کے بغیر تمہارا کوئی الٰہ نہیں۔ میں تم پر ایک بڑے [٦٣] دن کا عذاب واقع ہونے سے ڈرتا ہوں

تفسیر اشرف الہواشی - محمد عبدہ لفلاح

ف 7 اوپر بیان فرمایا ہے کہ ہدایت الٰہی اور اس کے برکات سے مستفیض ہونے یانہ ہونے میں لوگوں کی دو قسمیں ہیں ایک پاکیزہ فطرت ( طیب) جوہدایت الٰہی اور اس کی برکات سے خود بھی فائدہ اٹھاتے ہیں اور ان کے علم وعمل سے دوسروں کو بھی فائدہ پہنچتا ہے دوسرے وہ جو شرارت پسند اوربد فطرت ہوتے ہیں یہ لوگ باران ہدایت سے فائدہ اٹھانے کی بجائے الٹے جھاڑیاں اور کانٹے بن کر نکل آتے ہیں اور ان کے دلوں کی زمین چونکہ شور ہوتی ہے اس لیے ان پر باران رحمت چنداں فائدہ بخش نہیں ہو سکتی اس کے بعد اب یہاں سے تاریخی شواہد کے طور پر پہلی قوموں کے واقعات بیان کر کے گویا تاریخی ثبوت پیش کیا ہے کہ ہمیشہ سے لوگ دو قسم کے چلے آئے ہیں ( از ماخوذ ابن کثیر) حضرت نوح چونکہ سب سے پہلے نبی مرسل تھے جو مشرک قوم کی طرف بھیجے گئے جیسا کہ حدیث شفاعۃ کبری ٰاور بعض دوسری رایات سے معلوم ہوتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے انہی کا قصہ بیان فرمایا ہے حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں آدم ( علیہ السلام) سے لے کر دن قرن ایسے گزرے ہیں بنی آدم توحید پر قائم رہے اور حضرت نوح ( علیہ السلام) کی قوم سب سے پہلی قوم ہے جس نے اپنے بعض نیک لوگوں کی یاد تازہ رکھنے کے لیے ان کے مجسمے بنائے اور پھر انکی پوجا کرنے لگی ان مجسموں کے نام سورۃ نوح میں مذکور ہیں قوم نوح ملک عراق میں آباد تھی جو حضرت ابراہیم کا مو لد ہے حضرت نوح ( علیہ السلام) کا زمانہ تقریبا 3800 ق م تا 2850 ق م ہے۔ ( ابن کثیر، ابو الفدار )