بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
(شروع) اللہ کے نام [٢] سے جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔ [٣]
بسم اللہ الرحمن الرحیم ف1: اس سورت کو(1) الفاتحہ اس لیے کہتے ہیں کہ قرآن مجید کی کتابت اور نماز میں قرات اسی سے شروع ہوتی ہے اس اعتبار سے گویا قرآن کا دیباچہ ہے عہد نبوت میں اس کا مشہور تر نام یہی تھا اور اسی عتبار سے اسے (2)ام الکتاب اور(3) ام القرآن بھی کہا جاتا ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ مجملا قرآن کے جمیع علوم پر حاوی ہونے کی و جہ سے ام الکتاب سے ملقب کردیا گیا ہو نیز ان کے نام(4) الصلٰوۃ،(5) السبع المثانی اور(6) القرآن العظیم بھی مر فو عا ثابت ہیں صحابہ وتابعین سے اس کے بہت سے اور نام بھی منقول ہیں مثلا(7) الوافیہ، (8)الطافیہ،(9) اساس القرآن،(10) الشفاء وغیرہ (قر طبی) احادیث میں اس سورت کے بہت سے فضائل منقول ہیں دارمی میں ہے(فَاتِحَةُ الْكِتَابِ شِفَاءٌ مِنْ كُلِّ سَقَمٍ )کہ سورة فاتحہ ہر بیماری کے لیے شفاء ہے۔حضرت ابی بن کعب سے روایت ہے کہ نبی( ﷺ )نے فرمایا:ام القرآن جیسی افضل کوئ سورت نہ تو اس سے پہلے تواراۃ میں نازل ہوئ اور نہ انجیل میں (ترمذی)اس کے ہم معنی صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہ (رض)سے روایت ہے کہ یہ سورت سب سے افضل ہے (ابن کثیر)یہ سورت بالاجماع مکی ہے حضرت ابوہریرہ (رض) سے ایک روایت ہے کہ یہ مدینہ میں نازل ہوئی مگر علماء نے لکھا ہے کہ اس کی فضیلت مدینہ میں نازل ہوئی ہے اور بعض اس کا نزول مکرر بھی مانتے ہیں (ابن کثیر۔ قرطبی) ف2: قرآن کی تلاوت شروع کرتے وقت أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِپڑھ لینا چاہیے جیسا کہ سورت نحل میں ہے İ فَإِذَا قَرَأْتَ الْقُرْآنَ فَاسْتَعِذْ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ Ĭ اور ابو سعید الخدری (رض)سے ایک روایت میں ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نماز میں سورت فاتحہ سے قبل تعوذ پڑھ لیا کرتے تھے ( ابن کثیر۔ قرطبی) مسئلہ :اس سورت کا نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا فرض ہے جیسا کہ عبادہ بن صامت(رض) سے روایت ہے کہ آنحضرت (ﷺ) نے فرمایا (لَا صَلَاةَ إِلَّا بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ) (صحاح ستہ) کہ جس نے سورت فاتحہ نہ پڑھی اس کی کوئی نماز نہیں ہے اور یہ حکم ہر شخص کے لیے ہے خواہ وہ تنہا نماز پڑھ رہا ہو یا جماعت سے امام ہو یا مقتدی نماز جہری ہو یا سری، فرض ہو یا نفل اور حضرت عبادہ ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ آنحضرت (ﷺ) نےصبح کی نماز پڑھائی آپ (ﷺ) پہ قرات گراں ہوگئی۔ سلام پھیرنے کے بعد آپ (ﷺ) نے فرمایا : میرا خیال ہے کہ تم لوگ امام کے ہوتے ہوئے قرات کرتے ہوں ہم نے عرض کی جی ہاں آپ (ﷺ) نے فرمایا(لَا تَفْعَلُوا إِلَّا بِأُمِّ القُرْآنِ، فَإِنَّهُ لَا صَلَاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِهَا) ایسا نہ کرو مگر سورت فاتحہ ضرور پڑھ لیا کرو کیونکہ اس کے بغیر نماز نہیں ہوتی ( سنن ابوداؤد۔ ترمذی) ف3 : سورت نحل میں یہ جزو آیت ہے اور بالا جماع سے سورت فاتحہ اور دوسری اور سورتوں کے شروع میں لکھا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ سورۃ فاتحۃاور دوسری سورتوں کی جز و ہے ورنہ فصل کے لیے کوئی اور علامت بھی متعین ہو سکتی تھی جہری نمازوں میں اسے جہر ( بلند آواز) سے پڑھنا چاہیے یا سرا (یعنی پوشیدہ) سے احادیث سے دونوں طرح ثابت ہے صحیحین میں حضرت انس (رض) اور مسلم میں حضرت عائشہ (رض)سے روایت ہے کہ آنحضرت اور خلفائے اربعہ نماز میں قراتİ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَĬسے شروع کرتے تھے یعنی بسم اللہ سرّا( آہستہ) پڑھا کرتے تھے دوسری روایات میں جہری نمازو میں بالجہر ( بلند آواز سے) پڑھنا بھی ثابت ہے (درمنثور۔ نیل) حافظ ابن القیم رحمہ اللہ نے زادالمعاد میں پوشیدہ پڑھنے کو ترجیح دی ہے مگر احیانا سرّا اور احیانا جہرا پڑھ لیا جائے تو بہتر ہے تاکہ دونوں قسم کی احادیث پہ عمل ہوجائے ( المنار) نماز دونوں طرح ہوجاتی ہے اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے( ابن کثیر )