قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ
انہوں نے عرض کیا پروردگار ! ہم نے اپنے ہاتھوں اپنا نقصان کیا، اگر تو نے ہمارا قصور نہ بخشا اور ہم پر رحم نہ فرمایا تو ہمارے لیے بربادی کے سوا کچھ نہیں۔
قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَاۤ اَنْفُسَنَا....: سورۂ بقرہ میں ہے کہ آدم علیہ السلام نے یہ کلمات رب تعالیٰ سے سیکھے تھے اور انھی کلمات سے ان کی توبہ قبول ہوئی تھی۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ آیت(۳۷) کے فوائد۔ آدم علیہ السلام کی اس دعا سے ان کا اور ابلیس کا فرق واضح ہوتا ہے، یہاں عجز ہے، اعتراف گناہ ہے، اﷲ تعالیٰ کے سامنے اپنی محتاجی کا اظہار اور بخشش کی درخواست ہے، وہاں تکبر ہے، اپنے گناہ پر اصرار ہے، آئندہ مزید نافرمانی کے ارادے کا اظہار ہے اور مہلت کی درخواست ہے۔ اسی طرح یہاں پاک فطرت ہونے کی بنا پر قسم کی وجہ سے دشمن پر بھی اعتبار ہے، وہاں حسد کی وجہ سے بے گناہوں سے بھی دشمنی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی بے نیازی دیکھیے کہ دوست کی دعا بھی قبول اور دشمن کی بھی۔ یقیناً اس میں اس پاک پروردگار کی بے شمار حکمتیں تھیں۔