بِئْسَمَا اشْتَرَوْا بِهِ أَنفُسَهُمْ أَن يَكْفُرُوا بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ بَغْيًا أَن يُنَزِّلَ اللَّهُ مِن فَضْلِهِ عَلَىٰ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۖ فَبَاءُوا بِغَضَبٍ عَلَىٰ غَضَبٍ ۚ وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُّهِينٌ
(افسوس ان کی شقاوت پر) کیا ہی بری قیمت ہے جس کے بدلے انہوں نے اپنی جانوں کا سودا چکایا ! انہوں نے اللہ کی بھیجی ہوئی سچائی سے انکار کیا، اور صرف اس لیے انکار کیا کہ وہ جس کسی پر چاہتا ہے اپنا فضل کردیتا ہے (اس میں خود ان کی نسل و جماعت کی کوئی خصوصیت نہیں ہے۔ یہ لوگ اپنی بدعملیوں کی وجہ سے پہلے ہی ذلیل و خوار ہوچکے تھے، لیکن اس نئے انکار سے اور زیادہ ذلت و خواری کے سزاوار ہوئے) پس اللہ کا غضب بھی ایک کے بعد ایک ان کے حصے میں آیا اور اس کا قانون یہی ہے کہ انکار حق کرنے والوں کے لیے (ہمیشہ) رسوا کرنے والا عذاب ہوتا ہے
یعنی انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہچان لینے کے باوجود کہ یہ وہی نجات دلانے والا ہے جس کے آنے کی وہ دعائیں کرتے تھے، آپ کا انکار کیا، تو اس کی وجہ صرف ان کی یہ ضد، نسلی تعصب اور حسد تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا آخری نبی ان میں کیوں نہیں بھیجا اور اپنے فضل سے ایک ان پڑھ قوم عرب کو کیوں نوازا۔ یہ نہ سوچا کہ اللہ اپنے فضل کا خود مالک ہے، وہ جسے چاہے نواز دے۔ ان کے اس حسد کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ غضب پر غضب لے کر پلٹے۔ پہلے جرائم، جن کا گزشتہ آیات میں ذکر ہے، ان میں سے ہر ایک اللہ تعالیٰ کے غضب کا باعث تھا، مثلاً بچھڑے کی عبادت، تورات میں تحریف، رسولوں کا قتل، عیسیٰ علیہ السلام کی تکذیب وغیرہ، اب آخر الزماں نبی کو جھٹلایا تو مزید غضب کا نشانہ بنے، چنانچہ ”بِغَضَبٍ عَلٰى غَضَبٍ“ کا معنی ”پہلا اور دوسرا غضب“ نہیں ، بلکہ بار بار اور بڑا غضب ہے، جس کی وجہ سے انھیں ”الْمَغْضُوْبِ عَلَيْهِمْ“ فرمایا گیا ہے۔