وَلَقَدْ خَلَقْنَاكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنَاكُمْ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ لَمْ يَكُن مِّنَ السَّاجِدِينَ
اور (٢) (دیکھو یہ ہماری ہی کار فرمائی ہے کہ) ہم نے تمہیں پیدا کیا (یعنی تمہارا وجود پیدا کیا) پھر تمہاری (یعنی نوع انسانی کی) شکل و صورت بنا دی پھر (وہ وقت آیا کہ) فرشتوں کو حکم دیا آدم کے آگے جھک جاؤ، اس پر سب جھک گئے مگر ابلیس کہ جھکنے والوں میں سے نہ تھا۔
1۔ وَ لَقَدْ خَلَقْنٰكُمْ ثُمَّ صَوَّرْنٰكُمْ : ’’خَلَقَ ‘‘ کا اصل معنی جس چیز کا وجود نہ ہو اس کا صحیح خاکہ بنانا اور وجود میں لانا ہے۔ اس معنی میں خالق صرف اﷲ تعالیٰ ہے۔ ہاں، کسی چیز سے کوئی خاکہ تیار کرنے کو بھی ’’خَلَقَ ‘‘ کہہ لیتے ہیں، یہ مخلوق بھی کر سکتی ہے، سورۂ مائدہ (۱۱۰) میں عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے : ﴿وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ﴾ (راغب) ’’خلق، برأ ‘‘ اور تصویر، پیدائش کے تین مراحل ہیں، سورۂ حشر (۲۴) میں فرمایا : ﴿هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ﴾ تینوں الفاظ میں سے اکیلا کوئی بھی لفظ آئے تو پیدا کرنے کے معنی میں ہوتا ہے، اکٹھے آئیں تو کچھ فرق ہے، یعنی ہم نے تمھارا خاکہ بنایا، پھر تمھیں صورت بخشی۔ 2۔ ثُمَّ قُلْنَا لِلْمَلٰٓىِٕكَةِ۠ اسْجُدُوْا لِاٰدَمَ: اس سجدے سے مراد مطلق تعظیم ہے یا حقیقی سجدہ۔ تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ بقرہ (۳۴)۔