وَلَمَّا جَاءَهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُوا مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُوا فَلَمَّا جَاءَهُم مَّا عَرَفُوا كَفَرُوا بِهِ ۚ فَلَعْنَةُ اللَّهِ عَلَى الْكَافِرِينَ
چنانچہ جب ایسا ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کی ہدایت کے لیے ایک کتاب نازل ہوئی اور وہ اس کتاب کی تصدیق کرتی تھی جو پہلے سے ان کے پاس موجود ہے تو باوجودیکہ وہ (تورات کی پیشین گوئیوں کی بنا پر اس کے ظہور کے منتظر تھے، اور) کافروں کے مقابلے میں اس کا نام لے کر فتح و نصرت کی دعائیں مانگتے تھے، لیکن جب وہی جانی بوجھی ہوئی بات سامنے آگئی، تو صاف انکار کرگئے، پس ان لوگوں کے لیے جو (جان بوجھ کر) کفر کی راہ اختیار کریں اللہ کی لعنت ہے، (یعنی ایسوں پر فلاح و سعادت کی راہ کبھی نہیں کھلتی)
يَسْتَفْتِحُوْنَ: فتح و نصرت طلب کرتے تھے، یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے جب یہودی عرب کے مشرکین سے مغلوب ہوتے تو وہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ ! نبی آخر الزماں جلد ظاہر ہوں ، تاکہ ہم ان کے ساتھ مل کر ان کافروں پر غلبہ حاصل کریں ۔ (طبری) ”يَسْتَفْتِحُوْنَ“ کا دوسرا معنی ہے : ”يَفْتَحُوْنَ عَلَي الَّذِيْنَ كَفَرُوْا“ ( فَتَحَ عَلَيْهِ کا معنی ہے خبر دینا) سین اور تاء مبالغہ کے لیے ہے، یعنی کافروں کو خوب کھول کر بتاتے تھے۔ (زمخشری) عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے آپ کے ساتھ مل کر اوس اور خزرج پر فتح و غلبہ کی دعا کیا کرتے تھے، جب اللہ تعالیٰ نے آپ کو عرب میں سے مبعوث فرمایا تو انھوں نے آپ کے ساتھ کفر کیا اور ان سب باتوں کا انکار کر دیا جو وہ آپ کے بارے میں کہا کرتے تھے، تو معاذ بن جبل اور بشر بن معرور اور داؤد بن سلمہ رضی اللہ عنہم نے ان سے کہا : ’’اے یہود کی جماعت! اللہ سے ڈرو اور مسلمان ہو جاؤ ! تم تو محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کے ساتھ مل کر ہم پر فتح و غلبہ کی دعا کیا کرتے تھے، جب ہم شرک میں گرفتار تھے اور تم ہمیں بتایا کرتے تھے کہ اللہ کے آخری نبی مبعوث ہونے والے ہیں اور آپ کی نشانیاں بیان کیا کرتے تھے۔‘‘ تو سلام بن مشنکم، جو بنو نضیر میں سے تھا، اس نے کہا : ’’وہ ہمارے پاس کوئی چیز نہیں لائے جسے ہم پہچانتے ہوں اور یہ وہ نہیں جو ہم تمھیں بتایا کرتے تھے۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے ان کی اس بات پر یہ آیت نازل فرمائی : ﴿ وَ لَمَّا جَآءَهُمْ كِتٰبٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ﴾ [ طبری۔ ابن أبی حاتم بسند حسن :1؍238، ح : ۹۰۸ ] ۔ قرطبی نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ”يَسْتَفْتِحُوْنَ“ کے یہ معنی بھی نقل کیے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے پہلے جب یہودیوں کا عرب کے مشرکین سے مقابلہ ہوتا تو وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلے سے دعا کرتے اور کہتے : (( اَللّٰهُمَّ إِنَّا نَسْئَلُكَ بِحَقِّ النَّبِيِّ الْاُمِّيِّ الَّذِيْ وَعَدْتَّنَا أَنْ تُخْرِجَهٗ لَنَا فِيْ آخِرِ الزَّمَانِ إِلاَّ نَصَرْتَنَا عَلَيْهِمْ)) ’’اے اللہ ! ہم تجھ سے بحق نبی اُمّی سوال کرتے ہیں ، جس کا تو نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ اسے ہمارے لیے آخر زمانے میں ظاہر کرے گا کہ ہمیں ان پر فتح عطا فرما۔‘‘ چنانچہ جب وہ دشمن سے ملتے اور یہ دعا کرتے تو انھیں شکست دیتے۔ ( قرطبی) یہ روایت مستدرک حاکم(۲؍۲۶۳، ح : ۳۰۴۲) میں ہے، امام حاکم رحمہ اللہ نے فرمایا، یہ روایت تفسیر کی مجبوری کی بنا پر لائی گئی ہے اور اس کی حدیث سے یہ غریب ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی تلخیص میں فرمایا کہ اس کی کوئی مجبوری نہیں ، کیونکہ راوی عبد المالک متروک ہے، ہلاک ہونے والا ہے، اس کے علاوہ اس مفہوم کی روایات میں سے کوئی بھی صحیح نہیں ۔