فَمَا كَانَ دَعْوَاهُمْ إِذْ جَاءَهُم بَأْسُنَا إِلَّا أَن قَالُوا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ
پھر جب عذاب کی سختی نمودار ہوئی تو (انکار و شرارت کا سارا دم خم جاتا رہا) اس وقت ان کی پکار اس کے سوا کچھ بھی نہ تھی کہ بلا شبہ ہم ظلم کرنے والے تھے۔
فَمَا كَانَ دَعْوٰىهُمْ: ’’دعويٰ‘‘ کا معنی دعا بھی ہوتا ہے اور ادّعا بھی، یعنی اس وقت ان سے سوائے گناہ کے اعتراف کے کچھ بن نہ پڑا اور وہ اپنے بنائے ہوئے اولیاء، یعنی جھوٹے معبودوں کو بھول گئے اور اپنے تمام دعوے بھی، مثلاً یہ کہ آخرت کو بھی ہم ہی مقرب ہوں گے، مگر اس وقت کا اعترافِ گناہ ان کے کس کام آ سکتا تھا؟ جب گناہ سے توبہ کا وقت تھا اس وقت تو غفلت کی نیند سوتے رہے۔ ایسے وقت میں ان کے منہ سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلنے سے صاف ظاہر ہے کہ پہلے بھی ان کے دماغ میں یہ بات ہر وقت رہتی تھی کہ تم شرک کر کے اور اﷲ کے رسول کو جھٹلا کر ظلم کر رہے ہو، مگر ان کے تکبر اور عناد نے انھیں اقرار نہیں کرنے دیا۔ دیکھیے سورۂ انبیاء (۱۱ تا ۱۵) اور سورۂ مومن( ۸۵)۔