وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لَا تَسْفِكُونَ دِمَاءَكُمْ وَلَا تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ
اور پھر و (وہ معاملہ یاد کرو) جب ایسا ہوا تھا کہ ہم نے تم سے عہد لیا تھا : آپس میں ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو (یعنی اپنی جماعت کے افراد کو) جلا وطن کرو گے۔ تم نے اس کا اقرار کیا تھا اور تم (اب بھی) یہ بات مانتے ہو۔
1۔ ’’ایک دوسرے کا خون نہیں بہاؤ گے اور ایک دوسرے کو ان کے گھروں سے نہیں نکالو گے ‘‘ کے بجائے فرمایا کہ ’’تم اپنے خون نہیں بہاؤ گے اور نہ اپنے آپ کو اپنے گھروں سے نکالو گے‘‘کیونکہ امت مسلمہ کے افراد ایک جسم کی طرح ہیں ، کسی بھی مسلم کا خون بہانا اپنا خون بہانا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( مَثَلُ الْمُؤْمِنِيْنَ فِيْ تَوَادِّهِمْ وَ تَرَاحُمِهِمْ وَ تَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَي مِنْهٗ عُضْوٌ تَدَاعٰي لَهٗ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمّٰی )) ’’تمام مومن اپنی باہمی دوستی، ایک دوسرے پر رحم اور ایک دوسرے پر شفقت میں ایک جسم کی مانند ہیں ، جب اس کا ایک عضو بیمار ہوتا ہے تو اس کی خاطر سارا جسم بیدار رہتا ہے اور بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔‘‘ [ مسلم، البروالصلۃ، باب تراحم المؤمنین .... : ۲۶۲۶، عن النعمان بن بشیر رضی اللّٰہ عنہما ۔ بخاری : ۶۰۱۱ ] ﴿ وَ هُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ اِخْرَاجُهُمْ ﴾ میں ”هُوَ“ ضمیر شان ہے جس کا ترجمہ ’’ اصل یہ ہے‘‘ کیا گیا ہے۔ 2۔دونوں آیتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ان سے چار عہد لیے گئے تھے : (1) ایک دوسرے کا خون نہ بہانا۔ (2) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالنا۔ (3) ایک دوسرے کے خلاف مدد نہ کرنا۔ (4) قیدی کو فدیہ دے کر چھڑا لینا، مگر وہ صرف فدیہ پر عمل کرتے اور باقی تین کی مخالفت کرتے اور بلا جھجک ان کا ارتکاب کرتے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں یہود کے تین قبیلے تھے : بنو قینقاع، بنو نضیر اور بنو قریظہ، یہ اہل کتاب تھے۔ مدینہ کے عرب قبائل اوس اور خزرج بت پرست مشرک تھے، انھیں کسی آسمانی دین سے سروکار نہ تھا، یہود کے ان قبائل سے حلیفانہ تعلقات تھے۔ بنو قینقاع اور بنونضیر خزرج کے حلیف تھے اور بنو قریظہ اوس کے حلیف تھے۔ اوس اور خزرج کی آپس میں جنگ رہا کرتی تھی اور یہودی قبائل اس میں اپنے اپنے حلیف کا ساتھ دیتے اور مقابلے میں آنے والے مشرک قبیلے کے آدمیوں کے علاوہ ان کا ساتھ دینے والے اپنے یہودی بھائیوں کو بھی قتل کرتے، ان کے گھر بھی لوٹ لیتے، پھر جب لڑائی ختم ہوتی اور کچھ یہودی قید ہو کر غالب قبیلے کے پاس آتے تو غالب قبیلے کے حلیف یہودی خود ہی ان کا فدیہ دے کر انھیں چھڑوا دیتے اور کہتے کہ ہمیں اللہ کی کتاب کا حکم ہے کہ اپنے قیدی بھائیوں کو چھڑواؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تمھیں فدیہ دے کر چھڑوانے کا حکم تو یاد رہا، مگر اپنے بھائیوں کے خلاف دوسرے کی مدد نہ کرنے، ان کا خون نہ بہانے اور انھیں گھروں سے نہ نکالنے کا حکم یاد نہ رہا، جس پر تم عمل کرتے تو فدیے کی نوبت ہی نہ آتی۔ گویا تم اللہ کی کتاب کے جس حکم کو اپنی مرضی کے مطابق پاتے ہو مان لیتے ہو اور جو اپنی مرضی کے مطابق نہ ہو اس کی پروا نہیں کرتے، اگر تم واقعی اللہ کی کتاب پر چلتے ہو تو چاروں حکم مانو۔ 3۔ اِلَّا خِزْيٌ: یہودیوں کو دنیا کی زندگی میں جلد ہی رسوائی دیکھنا پڑی کہ بنو نضیر اور بنو قینقاع جلا وطن ہوئے اور بنو قریظہ کے بالغ مرد قتل ہوئے، بچے اور عورتیں لونڈی و غلام بنے، پھر آخرت کے عذاب کا تو دنیاوی عذاب سے کچھ موازنہ ہی نہیں ۔ 4۔ افسوس ! اس وقت اکثر مسلمانوں کا حال بعینہ وہی ہو گیا ہے جو اہل کتاب کا تھا کہ انھوں نے اسلام کے اپنی مرضی کے چند احکام پر عمل کیا اور باقی کو بھلا دیا، مثلاً مسلمان خنزیر کا گوشت کھانا تو درکنار اس کا نام لینے سے بھی اجتناب کرتے ہیں ، جب کہ سود اور جوئے (انشورنس وغیرہ) سے انھیں کچھ پرہیز نہیں ، بلکہ ان کے کاروبار کی بنیاد ہی ان کاموں پر ہے۔ وہ قبلے کی طرف منہ کرکے پیشاب نہیں کرتے، مگر انھیں نماز سے کچھ سروکار نہیں ۔ وہ جھٹکے والی مرغی (جسے شرعی طریقے سے حلال نہ کیا گیا ہو) کھانے سے یورپ اور امریکہ میں جا کر بھی اجتناب کرتے ہیں ، مگر شراب اور حرام شباب سے انھیں پرہیز نہیں ۔ وہ اپنے آپ کو امت مسلمہ کا فرد کہتے ہیں ، پھر کفار کے ساتھ مل کر اپنے ہی بھائیوں کو قتل اور ان کے گھروں اور شہروں کو تباہ و برباد کرتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ دنیا میں ذلت کی صورت میں تو صاف ظاہر ہے، رہا آخرت کا معاملہ تو کتاب کے بعض پر ایمان (یعنی اس پر عمل) اور بعض کے ساتھ کفر (یعنی اس کی مخالفت کرنا) اہلِ کتاب کو ”اَشَدِّ الْعَذَابِ“ سے نہیں بچا سکا تو موجودہ مسلمانوں کو اس سے کیسے بچائے گا؟