وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لَا تَعْبُدُونَ إِلَّا اللَّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا وَذِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُوا لِلنَّاسِ حُسْنًا وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلَّا قَلِيلًا مِّنكُمْ وَأَنتُم مُّعْرِضُونَ
اور پھر (وہ وقت) یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا (وہ عہد کیا تھا؟ کیا اسرائیلیت کے گھمنڈ اور یہودی گروہ بندی کی نجات یافتگی کا عہد تھا؟ نہیں، ایمان و عمل کا عہد تھا) اللہ کے سوا اور کسی کی عبادت نہ کرنا، ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا، عزیزوں قریبوں کے ساتھ نیکی سے پیش آنا، یتیموں مسکینوں کی خبر گیری کرنا، تمام انسانوں سے اچھا برتاؤ کرنا، نماز قائم کرنی، زکوۃ ادا کرنی (ایمان و عمل کی یہی بنیادی سچائیاں ہیں جن کا تم سے عہد لیا گیا تھا) لیکن تم اس عہد پر قائم نہیں رہے) ایک تھوڑی تعداد کے سوا سب الٹی چال چلے، اور حقیقت یہ ہے کہ (ہدایت کی طرف سے) تمہارے رخ ہی پھرے ہوئے ہیں
1۔ گزشتہ آیات میں بنی اسرائیل کو وہ تاریخی احسانات یاد دلائے گئے ہیں جو ان کے بزرگوں پر کیے گئے اور انھوں نے شکر گزاری کے بجائے کفر کیا، جس کے نتیجہ میں ان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے کئی بار عتاب نازل ہوا۔ اب یہاں ان کو وہ عہد یاد دلایا جا رہا ہے جو بنیادی احکام (عبادات و معاملات) دیتے وقت ان سے لیا گیا تھا اور بتایا جا رہا ہے کہ بنی اسرائیل نے اس عہد کی پابندی نہ کی اور اس سے سراسر بے پروائی اختیار کی۔ اسی قسم کا حکم سورۂ نساء(۳۶) میں امتِ مسلمہ کو بھی دیا گیا ہے۔ (ابن کثیر) 2۔لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللّٰهَ: عبادت کی چار قسمیں ہیں : (1) بدنی عبادت، جیسے طواف، رکوع، سجدہ وغیرہ۔ (2) مالی عبادت، جیسے صدقہ و خیرات کرنا اور نذر و نیاز ماننا۔ (3) لسانی عبادت (یعنی زبان سے)، جیسے کسی کے نام کا وظیفہ جپنا، یا اٹھتے بیٹھتے، چلتے پھرتے کسی کا نام لینا۔ (4) قلبی عبادت (یعنی دل سے)، جیسے کسی پر بھروسا رکھنا، کسی سے خوف کھانا یا امید رکھنا۔ یہ سب عبادتیں اللہ کے لیے ہیں ، ان میں جس نے اللہ کے ساتھ کسی اور کو شریک بنایا وہ شرک کا مرتکب ہو گیا۔ 3۔ وَ بِالْوَالِدَيْنِ اِحْسَانًا....:ماں باپ کے ساتھ نیکی سے پیش آنے کو اللہ تعالیٰ نے اس آیت کے علاوہ متعدد دوسری آیات میں عبادت الٰہی کے ساتھ بیان فرمایا ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ حقوق العباد میں سب سے افضل عمل یہی ہے۔ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا :’’سب سے افضل عمل کون سا ہے۔‘‘ فرمایا : ((اَلصَّلاَةُ عَلٰی وَقْتِهَا )) ’’نماز کو اس کے وقت پر پڑھنا۔ ‘‘ پوچھا : ’’پھر کون سا؟‘‘ فرمایا : (( بِرُّ الْوَالِدَيْنِ ))’’ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنا۔‘‘ پوچھا : ’’پھر کون سا؟‘‘ فرمایا : ”جہاد فی سبیل اللہ“ [ بخاری، مواقیت الصلاۃ، باب فضل الصلوۃ لوقتھا : ۵۲۷ ] اس کی وجہ یہی ہے کہ انھوں نے اسے جنم دیا، پھر اس کی پرورش کی ﴿ رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيٰنِيْ صَغِيْرًا ﴾ [ بنی إسرائیل : ۲۴ ] ”اے میرے رب! دونوں پر رحم کر جیسے انھوں نے چھوٹا ہونے کی حالت میں مجھے پالا۔“ 4۔ وَ الْيَتٰمٰى: یتیم وہ ہے جس کا والد بچپن میں فوت ہو جائے۔ علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’بالغ ہونے کے بعد یتیمی نہیں ۔‘‘[أبو داؤد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم: ۲۵۷۳ و صححہ الألبانی ] 5۔ وَ الْمَسٰكِيْنِ: اس کی وضاحت کے لیے دیکھیے سورۂ توبہ (۶۰) کا حاشیہ 6۔ وَ قُوْلُوْا لِلنَّاسِ حُسْنًا: ابن کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا : ’’قولِ حسن یہ ہے کہ نیکی کا حکم دے، برائی سے منع کرے، بردباری اور عفو و درگزر سے کام لے اور جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے کہ لوگوں سے اچھی بات کرے اور ہر وہ اچھی عادت ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے۔‘‘ ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’کسی نیکی کو حقیر نہ سمجھو، اگر تم کچھ اور نہ کر سکو تو کم از کم اپنے بھائی سے کھلے چہرے کے ساتھ مل لو۔‘‘ [ مسلم، البر والصلۃ، باب استحباب طلاقۃ .... : ۲۶۲۶ ] بنی اسرائیل کو قول حسن (اچھی بات) کا حکم تھا، ہماری امت کو اس سے بڑھ کر ’’احسن ‘‘ (سب سے اچھی بات) کا حکم ہے، چنانچہ فرمایا : ﴿ وَ قُلْ لِّعِبَادِيْ يَقُوْلُوا الَّتِيْ هِيَ اَحْسَنُ ﴾ [ بنی إسرائیل : ۵۳ ] ’’اور میرے بندوں سے کہہ دے وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو۔‘‘ 7۔ وَ اَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ: اس سے مراد وہ نماز اور زکوٰۃ ہے جو بنی اسرائیل ادا کرتے تھے۔ 8۔ اِلَّا قَلِيْلًا مِّنْكُمْ: اس سے مراد بنی اسرائیل کے وہ تھوڑے سے لوگ ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے اس عہد پر قائم رہے، یا آپ کے تشریف لانے کے بعد آپ پر ایمان لے آئے۔ باقی سب نے اس عہد و پیمان کو پسِ پشت پھینک دیا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا حد درجے کا انصاف ہے کہ ان کی عہد شکنی کا تذکرہ کرتے ہوئے بھی سب کو مجرم قرار نہیں دیا، بلکہ عہد پر قائم رہنے والوں کو، خواہ وہ تھوڑے تھے، عہد توڑنے والوں سے الگ ذکر فرمایا۔