وَتَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ صِدْقًا وَعَدْلًا ۚ لَّا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ ۚ وَهُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ
اور تمہارے رب کا کلام سچائی اور انصاف میں کامل ہے۔ اس کی باتوں کو کوئی بدلنے والا نہیں۔ وہ ہر بات سننے والا، ہر بات جاننے والا ہے۔
1۔ وَ تَمَّتْ كَلِمَتُ رَبِّكَ ....: یہاں کلمہ اور کلمات سے مراد قرآن ہے، یعنی قرآن معجزہ ہونے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے سچا ہونے کی دلیل کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ قرآن کے تمام مضامین دو ہی قسم کے ہیں، خبریں یا احکام۔ یہاں ’’صِدْقًا ‘‘ کا تعلق خبروں سے ہے اور ’’عَدْلًا ‘‘ کا تعلق احکام سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید کی تمام خبریں، خواہ ان کا تعلق اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات سے ہو یا گزشتہ واقعات یا مستقبل کے وعدے اور حوادث سے، وہ سب پورے طور پر سچے ہیں اور اس میں جتنے احکام ہیں وہ سب عدل و انصاف پر مشتمل ہیں، ان میں کسی قسم کی تبدیلی یا ترمیم کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسی کامل کتاب کی موجودگی میں ان شیطانی وساوس یا عقلی شکوک و شبہات کی کوئی گنجائش باقی نہیں ہے۔ (رازی) پھر ذبیحہ جیسے اہم مسئلے میں یہ اپنی کج فہمی سے کیوں دخل دے رہے ہیں۔ 2۔ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمٰتِهٖ: یعنی نہ تو اس قسم کے شبہات قرآن کے معجزہ ہونے پر اثرانداز ہو سکتے ہیں اور نہ اس کے اوامر و نواہی میں کوئی ترمیم جائز ہے اور نہ جیسے تورات و انجیل میں تحریف ہوئی، قرآن میں ہو سکے گی۔ (رازی)