وَنُقَلِّبُ أَفْئِدَتَهُمْ وَأَبْصَارَهُمْ كَمَا لَمْ يُؤْمِنُوا بِهِ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَنَذَرُهُمْ فِي طُغْيَانِهِمْ يَعْمَهُونَ
جس طرح یہ لوگ پہلی بار (قرآن جیسے معجزے پر) ایمان نہیں لائے، ہم بھی (ان کی ضد کی پاداش میں) ان کے دلوں اور نگاہوں کا رخ پھیر دیتے ہیں، اور ان کو اس حالت میں چھوڑ دیتے ہیں کہ یہ اپنی سرکشی میں بھٹکتے پھریں۔
وَ نُقَلِّبُ اَفْـِٕدَتَهُمْ وَ اَبْصَارَهُمْ....: یعنی اس سے پہلے معجزے دیکھ کر جب یہ ایمان نہیں لائے تو اب کیسے لائیں گے؟ جو شخص حق واضح ہونے کے بعد ہٹ دھرمی سے ایک دفعہ انکار کر دیتا ہے، پھر وہ مسلسل انکار ہی کرتا رہتا ہے۔ اس کے اس بد عمل کی وجہ سے آئندہ اس سے ایمان لانے کی توفیق چھین لی جاتی ہے۔ دیکھیے سورۂ یونس (۷۴) اور سورۂ انفال (۲۴) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں، یعنی جن کو اللہ ہدایت دیتا ہے وہ پہلی دفعہ ہی حق کی بات سن کر انصاف سے قبول کر لیتے ہیں اور جس شخص نے پہلے ہی ضد سے ٹھان رکھی ہے کہ مانے گا ہی نہیں، وہ معجزہ دیکھ کر بھی کوئی حیلہ بنا لیتا ہے، مثلاً فرعون نے کتنے ہی معجزے دیکھے پر وہ ایمان نہ لایا۔ (موضح)