وَلَا تَسُبُّوا الَّذِينَ يَدْعُونَ مِن دُونِ اللَّهِ فَيَسُبُّوا اللَّهَ عَدْوًا بِغَيْرِ عِلْمٍ ۗ كَذَٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ أُمَّةٍ عَمَلَهُمْ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّهِم مَّرْجِعُهُمْ فَيُنَبِّئُهُم بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ
(مسلمانو) جن (جھوٹے معبودوں) کو یہ لوگ اللہ کے بجائے پکارتے ہیں تم ان کو برا نہ کہو، جس کے نتیجے میں یہ لوگ جہالت کے عالم میں حد سے آگے بڑھ کر اللہ کو برا کہنے لگیں۔ (٤٦) (اس دنیا میں تو) ہم نے اسی طرح ہر گروہ کے عمل کو اس کی نظر میں خوشنما بنا رکھا ہے۔ (٤٧) پھر ان سب کو اپنے پروردگار ہی کے پاس لوٹنا ہے۔ اس وقت وہ انہیں بتائے گا کہ وہ کیا کچھ کیا کرتے تھے۔
1۔ وَ لَا تَسُبُّوا الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ....: یہ آیت سد ذرائع کی دلیل ہے، یعنی اگر ایک جائز کام کسی بڑی خرابی کا ذریعہ بنتا ہو تو اس جائز کام کو بھی چھوڑنا ضروری ہے۔ یعنی اگر تم مشرکین کے معبودوں کو گالی دو گے تو وہ جہالت سے اللہ تعالیٰ کو گالی دیں گے اور تم اس کا سبب بنو گے۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کے ماں باپ کو گالی دینے سے منع فرمایا کہ اس طرح تم خود اپنے والدین کو گالی دینے کا سبب بن جاؤ گے۔ [ بخاری، الأدب، باب لا یسب الرجل والدیہ : ۵۹۷۳ ] 2۔ كَذٰلِكَ زَيَّنَّا لِكُلِّ اُمَّةٍ ....: یعنی انسان کی عادت ہی یہ ہے کہ وہ اپنے ہر کام کو، چاہے وہ در حقیقت اچھا ہو یا برا، اچھا ہی سمجھتا ہے، یعنی : ﴿كُلُّ حِزْبٍۭ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُوْنَ﴾ [ المؤمنون : ۵۳ ] ’’ہر گروہ کے لوگ اسی پر خوش ہیں جو ان کے پاس ہے۔‘‘ لیکن انسان میں غور و فکر کی صلاحیت بھی رکھی ہے کہ وہ برے کام کو پوری آزادی سے چھوڑ کر نیک راستہ اختیار کر سکتا ہے، دنیا کا ہر کام اللہ کے چاہنے سے ہوتا ہے، وہ نہ چاہے تو نہیں ہوتا۔ انسانوں کو امتحان کے لیے اچھے برے دونوں کاموں کا اختیار دینا بھی اس کی مرضی اور حکمت سے ہے، مگر وہ اپنے بندوں کے لیے کفر اور برے کاموں کو پسند نہیں کرتا۔ دیکھیے سورۂ زمر (۷)۔