سورة البقرة - آیت 1

لم

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

الف۔ لام۔ میم۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

الٓمّٓ :کچھ سورتوں کے شروع میں جو حروف آئے ہیں انھیں مقطعات کہا جاتا ہے، کیونکہ یہ الگ الگ کر کے پڑھے جاتے ہیں ، ان کا معنی تو صاف ظاہر ہے کہ یہ حروف تہجی کے نام ہیں ، اس لیے یہ نہیں کہا جا سکتا کہ قرآن مجید میں ایسے الفاظ بھی ہیں جن کا کوئی معنی ہی نہیں ، مگر یہ حروف سورتوں کے شروع میں کیوں لائے گئے ہیں ، اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ کوئی بات منقول نہیں ۔ قرطبی رحمہ اللہ نے خلفائے اربعہ اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہم کا قول نقل کیا ہے کہ یہ حروف سر الٰہی ہیں جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، مگر اس کی سند نہ قرطبی نے ذکر کی ہے نہ کہیں اور مل سکی ہے۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور بعض تابعین سے اس کی تاویل میں مختلف اقوال مروی ہیں ، مگر صحتِ سند کے ساتھ ثابت نہیں ۔ بعض علماء نے ان کی تفسیر میں اپنی طرف سے کچھ نکات بیان کیے ہیں ، مگر وہ محض فنی کاوش ہیں ، حقیقت سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ سب سے قریب بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ ان حروف کے ذکر سے تمام دنیا کو چیلنج کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید انھی حروف تہجی میں اتارا ہے، اگر تمھیں اس کے منزل من اللہ ہونے میں شک ہے تو حروف تہجی تمھارے بھی علم اور استعمال میں ہیں تم بھی اس جیسی کوئی سورت بنا کر لے آؤ۔ اس کا قرینہ یہ ہے کہ عموماً یہ حروف جہاں بھی آئے ہیں ان کے بعد قرآن مجید، کتاب یا وحی کا ذکر آیا ہے، ابن کثیر نے فراء، مبرد، زمخشری اور دوسرے علماء کے علاوہ ابن تیمیہ کا یہی قول ذکر کیا ہے، مگر یہ بات پھر بھی باقی رہ جاتی ہے کہ کسی سورت کے شروع میں جو حروف آئے ہیں اس کے ساتھ ان کا خاص تعلق ہے، مثلاً کچھ سورتوں کے شروع میں الٓمّٓ ہے تو دوسری سورتوں کے شروع میں الرٰ یا طٰس وغیرہ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی حکمت تک رسائی ہمارے بس سے باہر ہے اور یہ مانے بغیر چارہ نہیں کہ یہ ان متشابہات سے ہیں جن کی حقیقی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔