سورة الانعام - آیت 98

وَهُوَ الَّذِي أَنشَأَكُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَةٍ فَمُسْتَقَرٌّ وَمُسْتَوْدَعٌ ۗ قَدْ فَصَّلْنَا الْآيَاتِ لِقَوْمٍ يَفْقَهُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

وہی ہے جس نے تم سب کو ایک جان سے پیدا کیا، پھر ہر شخص کا ایک مستقر ہے، اور ایک امانت رکھنے کی جگہ (٣٧)۔ ہم نے ساری نشانیاں ایک ایک کرکے کھول دی ہیں، (مگر) ان لوگوں کے لیے جو سمجھ سے کام لیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْشَاَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ ....: یعنی اسی نے تمھیں ایک جان آدم علیہ السلام سے پیدا کیا، پھر اس کے لیے ٹھہرنے کی جگہ بنائی اور سونپے جانے کی جگہ بنائی۔ ٹھہرنے کی جگہ ماں کا رحم اور سونپے جانے کی جگہ باپ کی پشت۔ مفسرین کی ایک جماعت سے اس کے برعکس بھی منقول ہے، یعنی ’’فَمُسْتَقَرٌّ ‘‘ باپ کی پشت اور ’’مُسْتَوْدَعٌ ‘‘ ماں کا رحم۔ بعض نے ان سے دنیا اور آخرت یا قبر مراد لی ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ اول ماں کے پیٹ میں سپرد ہوتا ہے، تاکہ آہستہ آہستہ دنیا میں رہنے کی صلاحیت حاصل کر لے، پھر دنیا میں آکر ٹھہرتا ہے، پھر سپرد ہو گا قبر میں تاکہ آہستہ آہستہ آخرت کا اثر قبول کر سکے، پھر جا ٹھہرے گا جنت یا دوزخ میں ۔ (موضح) لِقَوْمٍ يَّفْقَهُوْنَ: پہلے آفاقی دلائل بیان فرمائے، جو انسان کی ذات سے باہر کی دنیا ہے، دوسری آیت میں انفسی دلائل کی طرف اشارہ ہے، جو انسان کی ذات میں موجود ہیں۔ دلائل آفاقی سے دلائل انفسی کا سمجھنا ذرا زیادہ غور کا محتاج ہے، اس لیے یہاں سمجھ کا لفظ فرمایا اور پہلے کے متعلق علم کا۔ (واللہ اعلم)