بَلَىٰ مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُولَٰئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ
نہیں (آخرت کی نجات کسی ایک گروہ ہی کی میراث نہیں ہے کہ ہر حال میں اسی کے لیے ہو۔ خدا کا قانون تو یہ ہے کہ کوئی انسان ہو اور کسی گروہ کا ہو، لیکن) جس کسی نے بھی اپنے کاموں سے برائی کمائی اور اس کے گناہوں نے اسے گھیرے میں لے لیا، تو وہ دوزخی گروہ میں سے ہے۔ ہمیشہ دوزخ میں رہنے والا
سَيِّئَةً: تنوین تنکیر کے لیے نہیں ، بلکہ تعظیم کے لیے ہے، اس لیے ترجمہ ’’بڑی برائی‘‘ کیا گیا ہے، مراد اس سے کفر و شرک ہے۔ اس سے ملتا جلتا وہ واقعہ ہے کہ جب یہ آیت اتری : ﴿ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ ﴾ [ الأنعام : ۸۲ ] تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ”بِظُلْمٍ“ کی تنوین کو تنکیر کے لیے سمجھ کر کہا : ’’ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے ایمان میں کسی ظلم کی آمیزش نہیں کی؟‘‘ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’آیت میں ظلم سے یہ مراد نہیں ہے، کیا تم نے لقمان کی وہ نصیحت نہیں سنی جو انھوں نے اپنے بیٹے کو کی تھی : ﴿ اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ ﴾ [ لقمان : ۱۳ ] ’’بے شک شرک یقیناً بہت بڑا ظلم ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب: ﴿ لا تشرک باللّٰہ .... ﴾ : ۴۷۷۶ ] تفصیل سورۂ انعام (۸۲) میں دیکھیں ۔ اسی طرح یہاں بھی ”سَيِّئَةً“ سے مراد کفر و شرک ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے بھی اس سے مراد ایسا کفر لیا ہے جو ہر نیکی کو ختم کر دے۔ [ ابن أبی حاتم بسند حسن :1؍214، ح : ۸۱۲ ] ان آیات میں یہود کے اس نظریہ کی تردید ہے کہ ہم ہر حال میں آخر کار جنت میں جائیں گے، خواہ نبی آخر الزماں پر ایمان نہ لائیں ۔ چنانچہ بتایا گیا کہ جس نے بڑی برائی کا ارتکاب کیا، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے سے انکار کر دیا اور اسے اس کے گناہوں نے گھیر لیا کہ اس کی کوئی نیکی باقی نہ رہی تو یہ ابدی جہنمی ہے۔ مراد اس سے یہود اور دوسرے کفار ہیں ، کیوں کہ کفر ہی ایسا گناہ ہے جو تمام نیکیوں کو برباد کر دیتا ہے۔ آیت : ﴿ وَ قَدِمْنَاۤ اِلٰى مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنٰهُ هَبَآءً مَّنْثُوْرًا ﴾ [ الفرقان : ۲۳ ] ’’اور ہم اس کی طرف آئیں گے جو انھوں نے کوئی بھی عمل کیا ہو گا تو اسے بکھرا ہوا غبار بنا دیں گے۔‘‘ اس آیت سے گناہ گار مومن مراد نہیں ۔ اہل السنہ و الجماعہ کا اتفاق ہے کہ آگ میں ہمیشہ کفار و مشرکین ہی رہیں گے، کیونکہ متواتر احادیث سے ثابت ہے کہ گناہ گار کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، وہ چاہے گا تو اپنے فضل و کرم سے ان کے گناہ معاف فرما دے گا اور چاہے گا تو شفاعت سے یا اپنی خاص رحمت سے جہنم سے نکال دے گا۔ اس لیے اس آیت میں ”سَيِّئَةً“ اور ”خَطِيْٓٔتُهٗ“ سے مراد کفر و شرک ہی ہے۔ خصوصاً اس لیے بھی کہ یہ آیت یہود کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا، آیت : ﴿ بَلٰى مَنْ كَسَبَ سَيِّئَةً....﴾ ’’(یہود کو خطاب ہے)کہ جس نے تمھارے اعمال جیسے عمل کیے اور تمھاری طرح کفر کیا، حتیٰ کہ اس کے کفر نے اس کی تمام نیکیوں کو گھیر لیا۔ [ ابن أبی حاتم بسند حسن :1؍213، ح : ۸۲۱ ]