الَّذِينَ آمَنُوا وَلَمْ يَلْبِسُوا إِيمَانَهُم بِظُلْمٍ أُولَٰئِكَ لَهُمُ الْأَمْنُ وَهُم مُّهْتَدُونَ
(حقیقت تو یہ ہے کہ) جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور انہوں نے اپنے ایمان کے ساتھ کسی ظلم کا شائبہ بھی آنے نہیں دیا (٣٠) امن اور چین تو بس انہی کا حق ہے، اور وہی ہیں جو صحیح راستے پر پہنچ چکے ہیں۔
1۔ اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا ....: یہ آیت اللہ تعالیٰ کا ارشاد بھی ہو سکتا ہے اور ابراہیم علیہ السلام کی بات کو مکمل کرنے والا حصہ بھی۔ 2۔ تنوین اکثر تنکیر کے لیے ہوتی ہے، اس سے لفظ عام ہو جاتا ہے اور اس کا ہر فرد اس میں شامل ہو جاتا ہے، جیسے اس آیت میں مذکور ’’ بِظُلْمٍ ‘‘ کی تنوین کو تنکیر کے لیے لیں تو معنی ہو گا : ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو کسی ظلم کے ساتھ نہیں ملایا‘‘ اور بعض اوقات وہ دوسرے معانی کے لیے بھی ہوتی ہے، جن میں سے ایک معنی تعظیم بھی ہے، جس سے اس لفظ کا بڑا فرد مراد ہوتا ہے۔ جیسے اسی آیت میں ’’بِظُلْمٍ ‘‘ کی تنوین کو تعظیم کے معنی میں لیا جائے تو مطلب ہو گا : ’’وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اپنے ایمان کو بہت بڑے ظلم کے ساتھ نہیں ملایا۔‘‘ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری : ﴿اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ يَلْبِسُوْۤا اِيْمَانَهُمْ بِظُلْمٍ﴾ [ الأنعام : ۸۲ ] تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر اس آیت کا مضمون شاق گزرا۔ انھوں نے عرض کیا: ’’ہم میں سے کون ہے جس نے اپنے نفس پر ( کوئی) ظلم ( یعنی گناہ ) نہیں کیا؟‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو تم سمجھ رہے ہو وہ بات نہیں، کیا تم نے لقمان کا قول نہیں سنا، جو وہ اپنے بیٹے سے کہہ رہے تھے : ﴿اِنَّ الشِّرْكَ لَظُلْمٌ عَظِيْمٌ﴾ [ لقمان : ۱۳ ] ’’یقیناً شرک ظلم عظیم ہے۔‘‘ [ بخاری، التفسیر، باب : ﴿ولم یلبسوا إیمانھم بظلم﴾ : ۴۶۲۹۔ مسلم : ۱۲۴ ] آپ دیکھیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اہل زبان ہونے کے باوجود ’’ بِظُلْمٍ ‘‘ کی تنوین کو تنکیر کے لیے سمجھ کر پریشان ہو گئے کہ کون ہے جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لقمان کا قول ذکر کر کے انھیں بتایا کہ یہ تنوین تعظیم کے لیے ہے، نہ کہ تنکیر کے لیے اور معنی یہ نہیں کہ کسی ظلم کے ساتھ نہیں ملایا، بلکہ معنی یہ ہے کہ بہت بڑے ظلم، یعنی شرک کے ساتھ نہیں ملایا۔ اس سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ قرآن سمجھنے کے لیے صرف عربی زبان جاننا کافی نہیں، کئی مقامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تفسیر بھی ضروری ہے، اس لیے قرآن کو حدیث کے بغیر سمجھنے کا دعویٰ کرنے والے واضح گمراہ ہیں۔ 3۔ اس آیت مبارکہ سے ثابت ہوا کہ امن و سکون اور ہدایت ایسے خالص ایمان ہی سے حاصل ہو سکتے ہیں جس میں توحید کے ساتھ کسی قسم کے شرک کی آمیزش نہ کی گئی ہو، جو قوم خالص ایمان اور خالص توحید سے محروم اور کسی بھی قسم کے شرک میں مبتلا ہو اسے کسی صورت امن و چین اور ہدایت نصیب نہیں ہو سکتی۔ افسوس کہ مسلمانوں نے خالص توحید کو چھوڑا اور قبروں اور آستانوں کی پرستش شروع کر دی (الا ما شاء اللہ) جس کے نتیجے میں پورا عالم اسلام ذلت و مسکنت کا نشانہ بن گیا۔ اب نہ کہیں امن ہے نہ ہدایت جو اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کے احکام کی حکمرانی کا نام ہے۔ اس کا علاج اس کے سوا کچھ نہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ خالص توحید کی طرف پلٹے اور صرف اپنے رب کے آستانے پر جمی رہے۔