وَذَرِ الَّذِينَ اتَّخَذُوا دِينَهُمْ لَعِبًا وَلَهْوًا وَغَرَّتْهُمُ الْحَيَاةُ الدُّنْيَا ۚ وَذَكِّرْ بِهِ أَن تُبْسَلَ نَفْسٌ بِمَا كَسَبَتْ لَيْسَ لَهَا مِن دُونِ اللَّهِ وَلِيٌّ وَلَا شَفِيعٌ وَإِن تَعْدِلْ كُلَّ عَدْلٍ لَّا يُؤْخَذْ مِنْهَا ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ أُبْسِلُوا بِمَا كَسَبُوا ۖ لَهُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِيمٍ وَعَذَابٌ أَلِيمٌ بِمَا كَانُوا يَكْفُرُونَ
اور چھوڑ دو ان لوگوں کو جنہوں نے اپنے دین کو کھیل تماشا بنا رکھا ہے (٢٥) اور جن کو دنیوی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا ہے، اور اس (قرآن) کے ذریعے (لوگوں کو) نصیحت کرتے رہو، تاکہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے اعمال کے سبب اس طرح گرفتار ہوجائے کہ اللہ ( کے عذاب) سے بچانے کے لیے اللہ کو چھوڑ کر نہ کوئی اس کا یارومددگار بن سکے نہ سفارشی، اور اگر وہ (اپنی رہائی کے لیے) ہر طرح کا فدیہ بھی پیش کرنا چاہے تو اس سے وہ قبول نہ کیا جائے۔ (چنانچہ) یہی (دین کو کھیل تماشا بنانے والے) وہ لوگ ہیں جو اپنے کیے کی بدولت گرفتار ہوگئے ہیں۔ چونکہ انہوں نے کفر اپنا رکھا تھا، اس لیے ان کے لیے کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور ایک دکھ دینے والا عذاب (تیار) ہے۔
وَ ذَرِ الَّذِيْنَ اتَّخَذُوْا ....: اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا کہ جو لوگ دین اسلام کا مذاق اڑاتے ہیں اور دنیا کی زندگی نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے، آپ انھیں ان کے حال پر چھوڑ دیں اور اس قرآن کے ذریعے سے لوگوں کو نصیحت کرتے رہیں، ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اپنے برے اعمال کی وجہ سے جو اس نے کمائے، ہلاک کر دیا جائے، پھر آخرت میں اس کے چھوٹنے کی کوئی صورت ہی نہ رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا ان کا نہ کوئی حمایتی ہو گا اور نہ کوئی سفارش کرنے والا اور وہ کوئی بھی فدیہ دیں ان سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی کمائی اور بد اعمال کی وجہ سے ہلاک کر دیے گئے۔ ان کے پینے کے لیے سخت گرم پانی ہو گا اور ان کے کفر کی وجہ سے ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔ دیکھیے سورۂ بقرہ (۴۸)۔