وَلَا تَطْرُدِ الَّذِينَ يَدْعُونَ رَبَّهُم بِالْغَدَاةِ وَالْعَشِيِّ يُرِيدُونَ وَجْهَهُ ۖ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِم مِّن شَيْءٍ وَمَا مِنْ حِسَابِكَ عَلَيْهِم مِّن شَيْءٍ فَتَطْرُدَهُمْ فَتَكُونَ مِنَ الظَّالِمِينَ
اور ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نہ نکالنا جو صبح و شام اپنے پروردگار کو اس کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پکارتے رہتے ہیں۔ (١٩) ان کے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اور تمہارے حساب میں جو اعمال ہیں ان میں سے کسی کی ذمہ داری ان پر نہیں ہے جس کی وجہ سے تم انہیں نکال باہر کرو، اور ظالموں میں شامل ہوجاؤ۔
1۔ وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ....: سعد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم چھ آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ مشرکین نے کہا، ان لوگوں کو اپنی مجلس سے نکال دیں، تاکہ یہ ہم پر جرأت نہ کر سکیں۔ ان لوگوں میں میں تھا، ابن مسعود، ہذیل کا ایک آدمی اور دو اور جن کا میں نام نہیں لیتا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں اللہ نے جو چاہا خیال آیا، آپ ابھی سوچ ہی رہے تھے کہ اللہ عزوجل نے یہ آیت نازل فرما دی : ﴿وَ لَا تَطْرُدِ الَّذِيْنَ يَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِيِّ يُرِيْدُوْنَ وَجْهَهٗ﴾ [ مسلم، الفضائل، باب فی فضل سعد بن أبی وقاص رضی اللّٰہ عنہ : ۴۶؍۲۴۱۳ ] یعنی اللہ کے طالب اگرچہ غریب ہیں انھی کی خاطر داری مقدم ہے۔ (موضح) 2۔ مَا عَلَيْكَ مِنْ حِسَابِهِمْ ....: یعنی نہ ان کا حساب آپ کے ذمے ہے، نہ آپ کا ان کے ذمے، تو ان کا کیا قصور ہے کہ آپ انھیں اپنے سے دور کریں، جس کے نتیجے میں آپ ظالم ٹھہریں۔