فَلَمَّا نَسُوا مَا ذُكِّرُوا بِهِ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ أَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّىٰ إِذَا فَرِحُوا بِمَا أُوتُوا أَخَذْنَاهُم بَغْتَةً فَإِذَا هُم مُّبْلِسُونَ
پھر انہیں جو نصیحت کی گئی تھی، جب وہ اسے بھلا بیٹھے تو ہم نے ان پر ہر نعمت کے دروازے کھول دیئے (١٥) یہاں تک کہ جو نعمتیں انہیں دی گئی تھیں، جب وہ ان پر اترانے لگے تو ہم نے اچانک ان کو آپکڑا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ بالکل مایوس ہو کر رہ گئے۔
1۔ فَلَمَّا نَسُوْا مَا ذُكِّرُوْا بِهٖ....: جب انھوں نے اللہ تعالیٰ اور اس کے فرامین کو فراموش ہی کر دیا تو اللہ تعالیٰ نے ان پر حجت قائم کرنے کے لیے ان کی رسی دراز کر دی اور ان پر ہر قسم کی نعمتوں کے دروازے کھول دیے، پھر جب وہ عیش و آرام میں پوری طرح مگن ہو گئے تو اللہ نے اچانک انھیں پکڑ لیا، یعنی اچانک ایسا عذاب آیا کہ وہ اپنا تمام عیش و آرام بھول گئے اور انھیں بچنے کی کوئی امید نہ رہی اور اسی یاس اور ناامیدی کی حالت میں تباہ و برباد کر دیے گئے۔ عقل مند آدمی کو چاہیے کہ جب سختی اور مصیبت آئے تو اسے اللہ کی طرف سے تنبیہ سمجھ کر برے کاموں سے توبہ کر لے، ورنہ غفلت بڑھتی جائے گی اور اچانک ایسی سخت پکڑ ہو گی کہ توبہ کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ ’’مُّبْلِسُوْنَ ‘‘ یہ ’’ مُبْلِسٌ‘‘ کی جمع ہے، یعنی جس کی امید ختم ہو جائے۔ 2۔ فَتَحْنَا عَلَيْهِمْ اَبْوَابَ كُلِّ شَيْءٍ: اس آیت سے معلوم ہوا کہ اگر کفر و شرک اور اللہ کی نافرمانی کے باوجود کوئی قوم دنیوی مال کے لحاظ سے نہایت ترقی یافتہ اور خوش حال ہے تو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس پر خوش ہے، نہیں، بلکہ یہ استدراج ہے اور ان کے حق میں نہایت خطرناک ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران ( ۱۷۸)۔