سورة الانعام - آیت 28

بَلْ بَدَا لَهُم مَّا كَانُوا يُخْفُونَ مِن قَبْلُ ۖ وَلَوْ رُدُّوا لَعَادُوا لِمَا نُهُوا عَنْهُ وَإِنَّهُمْ لَكَاذِبُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

حالانکہ (ان کی یہ آرزو بھی سچی نہ ہوگی) بلکہ دراصل وہ چیز (یعنی آخرت) ان کے سامنے کھل کر ااچکی ہوگی جسے وہ پہلے چھپایا کرتے تھے (اس لیے مجبورا یہ دعوی کریں گے) ورنہ اگر ان کو واقعی واپس بھیجا جائے تو یہ دوبارہ وہی کچھ کریں گے جس سے انہیں روکا گیا ہے، اور یقین جانو یہ پکے جھوٹے ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

بَلْ بَدَا لَهُمْ مَّا كَانُوْا ....: اس سے پہلے ( اللہ تعالیٰ کے سامنے) جس کفر و شرک اور نفاق کو وہ جھوٹی قسمیں کھا کر چھپانے کی کوشش کر رہے تھے اس کی حقیقت کھل جائے گی۔ بعض نے ’’مِنْ قَبْلُ ‘‘ سے دنیا میں چھپانا مراد لیا ہے اور لکھا ہے کہ یہ آیت منافقین کے بارے میں ہے، یا پھر اس سے کفار کے سردار مراد ہیں، یعنی وہ قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا ہونا جانتے تھے، مگر اپنے پیروکاروں سے چھپاتے تھے۔ قیامت کے دن یہ حقیقت ان کے پیروکاروں پر کھل جائے گی اور انھیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ ہمیں دھوکا دیتے رہے ہیں۔ وَ لَوْ رُدُّوْا لَعَادُوْا لِمَا نُهُوْا عَنْهُ: یعنی پھر کفر و شرک اور نفاق کی راہ اختیار کریں گے، کیونکہ ان کی یہ آرزو ایمان لے آنے کی وجہ سے نہیں بلکہ کسی طرح جہنم سے بچنے کے لیے ہے۔ وَ اِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ: اس لیے آخرت میں اس آرزو کے اظہار میں بھی جھوٹ ہی سے کام لیں گے۔