قُلْ أَيُّ شَيْءٍ أَكْبَرُ شَهَادَةً ۖ قُلِ اللَّهُ ۖ شَهِيدٌ بَيْنِي وَبَيْنَكُمْ ۚ وَأُوحِيَ إِلَيَّ هَٰذَا الْقُرْآنُ لِأُنذِرَكُم بِهِ وَمَن بَلَغَ ۚ أَئِنَّكُمْ لَتَشْهَدُونَ أَنَّ مَعَ اللَّهِ آلِهَةً أُخْرَىٰ ۚ قُل لَّا أَشْهَدُ ۚ قُلْ إِنَّمَا هُوَ إِلَٰهٌ وَاحِدٌ وَإِنَّنِي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ
کہو : کون سی چیز ایسی ہے جو (کسی بات کی) گواہی دینے کے لیے سب سے اعلی درجے کی ہو ؟ کہو : اللہ (اور وہی) میرے اور تمہارے درمیان گواہ ہے۔ اور مجھ پر یہ قرآن وحی کے طور پر اس لیے نازل کیا گیا ہے تاکہ اس کے ذریعے میں تمہیں ڈراؤں، اور ان سب کو بھی جنہیں یہ قرآن پہنچے۔ کیا سچ مچ تم یہ گواہی دے سکتے ہو کہ اللہ کے ساتھ اور بھی معبود ہیں؟ کہہ دو کہ : میں تو ایسی گواہی نہیں دوں گا۔ کہہ دو کہ : وہ تو صرف ایک خدا ہے اور جن جن چیزوں کو تم اس کی خدائی میں شریک ٹھہراتے ہو، میں ان سب سے بیزار ہوں۔
1۔ قُلْ اَيُّ شَيْءٍ اَكْبَرُ شَهَادَةً ....: کفار مکہ کے بعد جب یہود و نصاریٰ کی اکثریت نے بھی آپ کو جھٹلا دیا تو کفار کہنے لگے، بتاؤ اب تمھاری رسالت کی گواہی کون دیتا ہے؟ تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو حکم دیا کہ آپ ان کافروں سے کہیے کہ اللہ کی ہستی سے بڑی ہستی کون سی ہے؟ جب کوئی نہیں تو بتاؤ سب سے بڑا شہادت دینے والا کون ہو گا ؟ آپ خود ہی ان کے سامنے واضح فرما دیجیے کہ وہ تو اللہ ہی ہے اور اللہ تعالیٰ کی گواہی یہ ہے کہ اس نے مجھ پر قرآن اتارا، جو قیامت تک کے لیے زندہ معجزہ ہے کہ کوئی بھی اس کی کسی ایک سورت جیسی کوئی سورت نہیں لا سکا اور نہ لا سکے گا۔ یہ قرآن معجزہ ہونے کے اعتبار سے میرے سچے نبی ہونے کی صریح دلیل ہے، اسی کے پیش نظر فرمایا : ﴿وَ اُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ﴾ ’’اور میری طرف یہ قرآن وحی کیا گیا ہے۔‘‘ (رازی ) شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ یہاں گواہی فرمایا قسم کو، یعنی میں قسم کھاتا ہوں اللہ کی، اس سے زیادہ کیا قسم ہو گی۔ (موضح) اس آیت میں اللہ کے لیے ’’شَيْءٍ ‘‘ ہونے کو ثابت کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک موجود، زندۂ جاوید ہستی ہے، محض ایک خیالی و تصوراتی ہستی نہیں ہے۔ 2۔ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَ مَنْ بَلَغَ: یعنی میری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے تاکہ میں تمھیں اس سے ڈراؤں اور اسے بھی جس تک یہ پہنچے۔ اس سے مراد قیامت تک آنے والے تمام عرب و عجم اور جن و انس ہیں اور مقصد یہ ہے کہ میری رسالت عالم گیر اور قیامت تک کے لیے ہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے مطابق روم، ایران، حبشہ اور کئی ممالک کو دین اسلام کی دعوت دی اور اپنی امت کے ہر فرد کو حکم دیا : (( بَلِّغُوْا عَنِّيْ وَلَوْ آيَةً)) ’’میری طرف سے پہنچا دو خواہ ایک آیت ( مسئلہ) ہو۔‘‘ [ بخاری، أحادیث الأنبیاء، باب ما ذکر عن بنی إسرائیل : ۳۴۶۱، عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضی اللّٰہ عنہما ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’میری بات سننے والوں میں سے ہر شخص اسے پہنچا دے جو یہاں موجود نہیں۔‘‘ [ بخاری، الحج، باب الخطبۃ أیام منًی : ۱۷۴۱ ] اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اللہ تعالیٰ ہر اس بندے ( کے چہرے) کو تروتازہ رکھے جو میری بات یاد رکھے اور آگے پہنچا دے۔‘‘ [ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی الحث علی تبلیغ السماع : ۲۶۵۶ تا ۲۶۵۸ ] ان احادیث اور آیات سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے احکام تمام لوگوں کے لیے اور قیامت تک کے لیے ہیں، ان میں تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ ہر زمانے کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ اسے اگلے زمانے کے لوگوں تک پہنچائیں۔ قرآن کے احکام کو صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک محدود رکھنا اور حالات کی تبدیلی کے بہانے قرآن و حدیث کے احکام میں تبدیلی کرنا قرآن کے احکام سے جان چھڑانے کی کوشش ہے اور صریح تحریف ہے، جس کی وجہ سے یہودی ملعون ٹھہرے۔ 3۔ اَىِٕنَّكُمْ لَتَشْهَدُوْنَ....: یعنی قرآن میں مذکور توحید کے واضح اور قطعی دلائل کے باوجود کیا تم گواہی دیتے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کوئی اور معبود بھی ہیں۔ آپ کہہ دیجیے تم جو چاہو کہو، میں یہ شہادت کبھی نہیں دے سکتا۔ کہہ دیجیے کہ معبود تو صرف ایک اللہ ہے، میں کسی اور کو معبود نہیں مانتا اور صاف کہتا ہوں کہ میں ان تمام ہستیوں سے جنھیں تم شریک ٹھہراتے ہو، بری ہوں ’’مَا‘‘ مصدریہ ہو تو معنی ہو گا، میں تمھارے شرک سے جو تم کرتے ہو، بری ہوں۔