قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
اللہ کہے گا کہ : یہ وہ دن ہے جس میں سچے لوگوں کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا۔ ان کے لیے وہ باغات ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، جن میں یہ لوگ ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔ اللہ ان سے خوش ہے اور یہ اس سے خوش ہیں۔ یہی بڑی زبردست کامیابی ہے۔
1۔ قَالَ اللّٰهُ هٰذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصّٰدِقِيْنَ صِدْقُهُمْ: سب سے بڑا ظلم اور جھوٹ اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہرانا اور کفر کرنا ہے اور سب سے بڑا سچ اور انصاف اللہ تعالیٰ کی توحید اور ایمان ہے، یعنی اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ یہ وہ دن ہے کہ سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا۔ یعنی مشرکین کی معافی اور بخشش کی کوئی صورت نہ ہوگی، البتہ توحید والوں کو ان کی توحید ضرور نفع پہنچائے گی، خواہ کتنے گناہ گار ہوں۔ چنانچہ ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک اس آیت کو نماز میں پڑھتے رہے : ﴿اِنْ تُعَذِّبْهُمْ فَاِنَّهُمْ عِبَادُكَ وَ اِنْ تَغْفِرْ لَهُمْ فَاِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ﴾ [ المائدۃ : ۱۱۸ ] ابو ذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے صبح کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ آپ اس آیت کو ساری رات پڑھتے رہے، یہاں تک کہ اپنے رکوع اور سجدے میں بھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’اس آیت کو بار بار پڑھ کر میں نے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کی التجا کی تھی اور اللہ تعالیٰ نے میری التجا قبول کر لی ہے، میری امت میں سے جو شخص بغیر شرک کی حالت میں مرے گا اس کو میری شفاعت نصیب ہو گی۔‘‘ [ أحمد : ۵؍۱۴۹، ح : ۲۱۳۸۶ ] ’’الصّٰدِقِيْنَ ‘‘ کے لیے مزید دیکھیے سورۂ بقرہ (۱۷۷)، سورۂ زمر (۳۳) اور سورۂ حجرات(۱۵)۔ 2۔ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ: اس کے مقابلے میں دنیا کی بڑی سے بڑی کامیابی بھی کوئی وقعت نہیں رکھتی۔