قَالَ اللَّهُ إِنِّي مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ۖ فَمَن يَكْفُرْ بَعْدُ مِنكُمْ فَإِنِّي أُعَذِّبُهُ عَذَابًا لَّا أُعَذِّبُهُ أَحَدًا مِّنَ الْعَالَمِينَ
اللہ نے کہا کہ : میں بیشک تم پر وہ خوان اتار دوں گا، لیکن اس کے بعد تم میں سے جو شخص بھی کفر کرے گا اس کو میں ایسی سزا دوں گا جو دنیا جہان کے کسی بھی شخص کو نہیں دوں گا۔ (٧٨)
قَالَ اللّٰهُ اِنِّيْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ ....: علماء کا اس بارے میں اختلاف ہے کہ وہ دسترخوان اترا یا نہیں، اکثر علماء کا خیال ہے کہ وہ اترا، شوکانی، ابن جریر اور بہت سے علماء نے اسی کو صحیح کہا ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا تاکید کے ساتھ فرمانا : ﴿اِنِّيْ مُنَزِّلُهَا عَلَيْكُمْ﴾ ’’یقیناً میں اسے تم پر اتارنے والا ہوں۔‘‘ یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے اتارا۔ جامع ترمذی میں عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’مائدہ آسمان سے گوشت روٹی کی صورت میں اترا اور انھیں حکم دیا گیا کہ وہ نہ خیانت کریں اور نہ کل کے لیے ذخیرہ کریں، مگر انھوں نے خیانت کی اور ذخیرہ کیا اور کل کے لیے اٹھا رکھا تو انھیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل دیا گیا۔‘‘ [ ترمذی، تفسیر القرآن، باب و من سورۃ المائدۃ : ۳۰۶۱ ] اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو کسی کو اختلاف کی مجال ہی نہ تھی، مگر شیخ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ نے اس کے حدیث رسول ہونے یا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کا قول ہونے، دونوں باتوں کو ضعیف کہا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے علماء کا کہنا ہے کہ بعد کے الفاظ : ﴿فَمَنْ يَّكْفُرْ بَعْدُ مِنْكُمْ فَاِنِّيْۤ اُعَذِّبُهٗ عَذَابًا لَّاۤ اُعَذِّبُهٗۤ اَحَدًا مِّنَ الْعٰلَمِيْنَ﴾ یہ الفاظ سن کر وہ ڈر گئے اور انھوں نے دعا کا مطالبہ واپس لے لیا۔ یہ قول مجاہد اور حسن بصری کا ہے، ان کی سندوں کو ابن کثیر نے صحیح کہا ہے، مگر یہ بھی تابعین اور ان کے بعد کے لوگوں کا قول ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات بھی ثابت نہیں۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ مائدہ اترا تھا، وہ اس کا ایک قرینہ یہ بھی بیان کرتے ہیں کہ اس سے پہلی آیات میں اللہ نے مسیح علیہ السلام پر اپنے احسان شمار کیے ہیں، ان کے ساتھ اس واقعہ کو بھی بطور احسان ذکر فرمایا ہے اور آخر میں ان سے سوال کیا ہے کہ کیا تم نے میرے اتنے احسانات کے باوجود لوگوں سے کہا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو اللہ کے سوا معبود بنا لینا، اس لیے مائدہ کا اترنا بھی ایک احسان تھا۔ دوسرے حضرات کہہ سکتے ہیں کہ مائدہ نہ اتار کر انھیں امتحان سے بچا لینا بھی ایک احسان ہی تھا۔ بہرحال قرآن مجید کے الفاظ دونوں صورتوں کا احتمال رکھتے ہیں اور اصل حقیقت اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ شاہ عبد القادر رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ’’شاید عیسیٰ علیہ السلام کی اس دعا کا اثر ہے کہ اس کی امت میں مال کی آسودگی ہمیشہ رہی اور جو کوئی ان میں نا شکری کرے تو شاید آخرت میں سب سے زیادہ عذاب پائے۔‘‘ مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری کے بعد عیسیٰ علیہ السلام کا امتی وہی ہے جو اسلام قبول کر لے، دوسرے لوگوں کا اپنے آپ کو مسیح علیہ السلام کا امتی کہلانا سینہ زوری ہے، کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام نے واضح طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے۔ اب تمام دنیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی امت ہے، خواہ وہ امت اجابت ہو یا امت دعوت۔ رہا دنیا کا مال تو وہ کبھی کسی کے پاس زیادہ ہوتا ہے، کبھی کسی کے پاس، اس کا ایمان و کفر کے ساتھ کوئی تعلق نہیں، اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ﴿كُلًّا نُّمِدُّ هٰۤؤُلَآءِ وَ هٰۤؤُلَآءِ مِنْ عَطَآءِ رَبِّكَ﴾[ بنی إسرائیل : ۲۰ ] ’’ہم ہر ایک کی مدد کرتے ہیں، ان کی اور ان کی بھی، تیرے رب کی بخشش سے۔‘‘ اور فرمایا : ﴿وَ تِلْكَ الْاَيَّامُ نُدَاوِلُهَا بَيْنَ النَّاسِ﴾ [ آل عمران : ۱۴۰ ] ’’اور یہ تو دن ہیں، ہم انھیں لوگوں کے درمیان باری باری بدلتے رہتے ہیں۔‘‘