قَالَ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللَّهُمَّ رَبَّنَا أَنزِلْ عَلَيْنَا مَائِدَةً مِّنَ السَّمَاءِ تَكُونُ لَنَا عِيدًا لِّأَوَّلِنَا وَآخِرِنَا وَآيَةً مِّنكَ ۖ وَارْزُقْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّازِقِينَ
(چنانچہ) عیسیٰ ابن مریم نے درخواست کی کہ : یا اللہ ! ہم پر آسمان سے ایک خوان اتار دیجیے جو ہمارے لیے اور ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے ایک خوشی کا موقع بن جائے، اور آپ کی طرف سے ایک نشانی ہو۔ اور ہمیں یہ نعمت عطا فرما ہی دیجیے، اور آپ سب سے بہتر عطا فرمانے والے ہیں۔
1۔ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ.... : یہ انتہا درجے کی عاجزی کے ساتھ دعا ہے کہ ’’اللّٰهُمَّ ‘‘ (اے اللہ!) کے ساتھ ’’ رَبَّنَاۤ ‘‘ ( اے ہمارے پالنے والے!) بھی ملایا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام نہ اللہ تھے، نہ اللہ کے بیٹے، نہ اللہ کے اختیار رکھنے والے، ان کے حواری بھی ان میں سے کسی چیز کے قائل نہ تھے، ورنہ وہ عیسیٰ علیہ السلام سے دعا کیوں کرواتے اور عیسیٰ علیہ السلام بھی اتنی عاجزی کے ساتھ دعا کیوں کرتے، بلکہ ان کے حواری خود ان سے مائدہ کا مطالبہ کرتے اور وہ خود ہی پورا کر دیتے۔ 2۔ تَكُوْنُ لَنَا عِيْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا: علماء نے اس سے استدلال کیا ہے کہ وہ دسترخوان اتوار کے دن اترا، کیونکہ وہ نصرانیوں کی عید ہے، سبت یہودیوں کی، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عید کا دن جمعہ تھا مگر یہودیوں اور نصرانیوں نے اصل دن میں اختلاف کیا اور مسلمانوں کو اللہ تعالیٰ نے توفیق دی تو انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر کسی چون و چرا کے بغیر جمعہ کو تسلیم کر لیا۔ [ دیکھیے مسلم، الجمعۃ، باب ھدایۃ ھذہ الأمۃ....: ۸۵۶ ] لفظ عید ’’عَادَ يَعُوْدُ ‘‘ سے ہے، یعنی ایسی خوشی جو بار بار لوٹ کر آئے، یہ سالانہ بھی ہو سکتی ہے اور ہفتہ وار بھی۔ مسلمانوں کی دو عیدیں سالانہ ہیں اور ایک ہر ساتویں دن عید جمعہ ہے۔ ان کے علاوہ کوئی عید قرآن و سنت سے ثابت نہیں، مثلاً عید میلاد یا عید غدیر وغیرہ، یہ سب خود ساختہ اور بدعت ہیں۔ 3۔ وَ اٰيَةً مِّنْكَ: یعنی تیری توحید اور تیرے نبی کی رسالت کے حق ہونے پر دلیل قائم ہو۔ (کبیر) 4۔ وَ اَنْتَ خَيْرُ الرّٰزِقِيْنَ: کیونکہ حقیقت میں تو ہی روزی دینے والا ہے، تیرے سوا ایک بھی روزی پیدا کرنے والا نہیں، سب تیرا دیا ہوا ہی کھاتے، یا کسی دوسرے کو دیتے ہیں۔