إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ اذْكُرْ نِعْمَتِي عَلَيْكَ وَعَلَىٰ وَالِدَتِكَ إِذْ أَيَّدتُّكَ بِرُوحِ الْقُدُسِ تُكَلِّمُ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ وَكَهْلًا ۖ وَإِذْ عَلَّمْتُكَ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَالتَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ ۖ وَإِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّينِ كَهَيْئَةِ الطَّيْرِ بِإِذْنِي فَتَنفُخُ فِيهَا فَتَكُونُ طَيْرًا بِإِذْنِي ۖ وَتُبْرِئُ الْأَكْمَهَ وَالْأَبْرَصَ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ تُخْرِجُ الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِي ۖ وَإِذْ كَفَفْتُ بَنِي إِسْرَائِيلَ عَنكَ إِذْ جِئْتَهُم بِالْبَيِّنَاتِ فَقَالَ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْهُمْ إِنْ هَٰذَا إِلَّا سِحْرٌ مُّبِينٌ
(یہ واقعہ اس دن ہوگا) جب اللہ کہے گا : اے عیسیٰ ابن مریم میرا انعام یاد کرو جو میں نے تم پر اور تمہاری والدہ پر کیا تھا، جب میں نے روح القدس کے ذریعے تمہاری مدد کی تھی۔ (٧٦) تم لوگوں سے گہوارے میں بھی بات کرتے تھے، اور بڑی عمر میں بھی۔ اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی تھی، اور جب تم میرے حکم سے گارا لے کر اس سے پرندے کی جیسی شکل بناتے تھے، پھر اس میں پھونک مارتے تھے تو وہ میرے حکم سے (سچ مچ کا) پرندہ بن جاتا تھا، اور تم مادرزاد اندھے اور کوڑھی کو میرے حکم سے اچھا کردیتے تھے، اور جب تم میرے حکم سے مردوں کو (زندہ) نکال کھڑا کرتے تھے، اور جب میں نے بنی اسرائیل کو اس وقت تم سے دور رکھا جب تم ان کے پاس کھلی نشانیاں لے کر آئے تھے، اور ان میں سے جو کافر تھے انہوں نے کہا تھا کہ یہ کھلے جادو کے سوا کچھ نہیں۔
1۔ چونکہ پیغمبروں سے سوال امتوں کے سرکش لوگوں کو ڈانٹنے اور ملامت کرنے کے لیے ہو گا اور سب سے زیادہ ملامت کے لائق نصاریٰ ہوں گے جنھوں نے عیسیٰ علیہ السلام کو معبود بنا لیا تھا اور اللہ تعالیٰ کے لیے بیوی اور اولاد ثابت کی تھی ( جس سے اللہ تعالیٰ بہت بلند ہے) اس بنا پر تمام پیغمبروں کی موجودگی میں اللہ تعالیٰ عیسیٰ علیہ السلام پر اپنے انعامات ذکر فرمائیں گے اور پھر ان سے سوال ہو گا، اس سے مقصد نصرانیوں کی تردید ہے۔ (کبیر) 2۔ اِذْ اَيَّدْتُّكَ بِرُوْحِ الْقُدُسِ: یعنی جبریل علیہ السلام کو تمھاری مدد کے لیے مقرر کر دیا تھا۔ پہلا احسان یہ ذکر فرمایا۔ 3۔ وَ اِذْ تَخْلُقُ مِنَ الطِّيْنِ: یہاں ’’تَخْلُقُ ‘‘ کا لفظ صرف ظاہری شکل و صورت بنانے کے معنی میں استعمال ہوا ہے، جیسا کہ حدیث میں ہے کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تصویر بنانے والوں سے فرمائے گا : (( أَحْيُوْا مَا خَلَقْتُمْ )) [ بخاری، اللباس، باب عذاب المصورین یوم القیامۃ : ۵۹۵۱ ] ’’جو تم نے خلق کیا ہے اسے زندہ کرو۔‘‘ پیدا کرنے اور زندگی دینے کے معنی میں خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ دیکھیے سورۂ آل عمران (۴۹)۔ 4۔ كَهَيْـَٔةِ الطَّيْرِ بِاِذْنِيْ: اس آیت میں ’’بِاِذْنِيْ ‘‘ ( میرے حکم سے) کا لفظ چار مرتبہ آیا ہے، جس سے بتانا یہ مقصود ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہوتا تو عیسیٰ( علیہ السلام ) یہ معجزات نہیں دکھا سکتے تھے اور یہی حال ہر نبی کے معجزات کا ہے، وہ نہ عالم الغیب ہوتے ہیں، نہ انھیں ہر کام کا اختیار ہوتا ہے، جو کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بتایا جائے یا جس کام کا اختیار دیا جائے صرف وہی ان کے علم اور اختیار میں ہوتا ہے۔ 5۔ وَ اِذْ كَفَفْتُ بَنِيْۤ اِسْرَآءِيْلَ ....: یہودیوں نے جس طرح عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کی سازش کی اور پھر اللہ تعالیٰ نے انھیں ان کے شر سے محفوظ رکھا اور اپنی طرف اٹھا لیا اس کی تفصیل کے لیے دیکھیے سورۂ آل عمران(۵۵) اور سورۂ نساء(۱۵۸) یہ بھی احسان فرمایا۔ 6۔ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ مُّبِيْنٌ: عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت کے منکروں نے ان کے معجزات کو کھلا جادو قرار دیا۔ بدبخت اتنا نہ سمجھ سکے کہ مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو شفایاب اور مردے کو زندہ کرنا کسی جادوگر کے لیے ممکن نہیں، چاہے وہ جادو میں کتنا ہی کمال کیوں نہ رکھتا ہو اور یوں بھی جادو کرنا اور کرانا فاسق و بدکار قسم کے لوگوں کا کام ہے، حالانکہ وہ خود دیکھ رہے تھے کہ عیسیٰ علیہ السلام انھیں ایک اللہ کی عبادت و اطاعت کا حکم دیتے تھے۔ یہود کی اس حرکت کی بنیاد حسد تھی اور سچ ہے کہ ’’كُلُّ ذِيْ نِعْمَةٍ مَحْسُوْدٌ ‘‘ ہر صاحب نعمت پر لوگ حسد کرتے ہیں۔