يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَأَنتُمْ حُرُمٌ ۚ وَمَن قَتَلَهُ مِنكُم مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاءٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ يَحْكُمُ بِهِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنكُمْ هَدْيًا بَالِغَ الْكَعْبَةِ أَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسَاكِينَ أَوْ عَدْلُ ذَٰلِكَ صِيَامًا لِّيَذُوقَ وَبَالَ أَمْرِهِ ۗ عَفَا اللَّهُ عَمَّا سَلَفَ ۚ وَمَنْ عَادَ فَيَنتَقِمُ اللَّهُ مِنْهُ ۗ وَاللَّهُ عَزِيزٌ ذُو انتِقَامٍ
اے ایمان والو ! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو کسی شکار کو قتل نہ کرو۔ اور اگر تم میں سے کوئی اسے جان بوجھ کر قتل کردے تو اس کا بدلہ دینا واجب ہوگا (جس کا طریقہ یہ ہوگا کہ) جو جانور اس نے قتل کیا ہے، اس جانور کے برابر چوپایوں میں سے کسی جانور کو جس کا فیصلہ تم میں سے دو دیانت دار تجربہ کار آدمی کریں گے، کعبہ پہنچا کر قربان کیا جائے، یا (اس کی قیمت کا) کفارہ مسکینوں کا کھانا کھلا کر ادا کیا جائے، یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں، (٦٦) تاکہ وہ شخص اپنے کیے کا بدلہ چکھے۔ پہلے جو کچھ ہوچکا اللہ نے اسے معاف کردیا، اور جو شخص دوبارہ ایسا کرے گا تو اللہ اس سے بدلہ لے گا، اور اللہ اقتدار اور انتظام کا مالک ہے۔
1۔ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّيْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ : محرم نہ شکار کرے نہ شکار میں کسی طرح مدد کرے، فرمایا: ﴿وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ ﴾ [ المائدۃ : ۲ ] ’’اور گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔‘‘ ہاں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’پانچ جانور فاسق ہیں، انھیں حرم میں بھی قتل کیا جاتا ہے، یعنی چوہا، بچھو، چیل، کوا اور کاٹنے والا کتا۔‘‘ [بخاری، بدء الخلق، باب إذا وقع الذباب أحدکم....: ۳۳۱۴ ] اہل علم نے فواسق، یعنی خواہ مخواہ ایذا دینے والے جانوروں میں ’’اَلْكَلْبُ الْعَقُوْرُ‘‘ شامل ہونے کی بنا پر سانپ، بھیڑیے، چیتے اور شیر وغیرہ کو مارنے کی اجازت اخذ کی ہے۔ 2۔ وَ مَنْ قَتَلَهٗ مِنْكُمْ مُّتَعَمِّدًا ....: یعنی احرام کی حالت میں جیسا شکار مارے اسی کی ’’مثل‘‘ کا فدیہ دے۔ مثل سے مراد یہ ہے کہ تن و توش، قد و قامت اور شکل و صورت میں اس سے ملتا جلتا ہو، جیسے ہرن کی جگہ بکرا۔ 3۔ يَحْكُمُ بِهٖ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْكُمْ.... : یعنی دو عادل مسلمان مل کر فیصلہ کریں کہ اس شکار کی مثل کون سا جانور ہو سکتا ہے۔ 4۔ هَدْيًۢا بٰلِغَ الْكَعْبَةِ: یعنی اس جانور کو مکہ معظمہ میں لے جا کر ذبح کیا جائے اور وہیں اس کا گوشت مسکینوں میں تقسیم کیا جائے، اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں۔ 5۔ اَوْ كَفَّارَةٌ طَعَامُ مَسٰكِيْنَ.... : اس آیت میں ’’اَوْ ‘‘ اختیار کے لیے ہے، یعنی شکار کرنے والے کو اختیار ہے کہ ان تینوں میں سے جو کفارہ چاہے ادا کر دے، شکار کردہ جانور کی مثل جانور کعبہ، یعنی حرم میں لے جا کر قربان کیا جائے، یا اس کی مثل کے مساوی قیمت کا غلہ بطور کفارہ مسکینوں میں تقسیم کیا جائے، یا اس کے برابر روزے رکھے جائیں۔ قاموس اور دوسری کتب لغت میں ’’مُد‘‘ کی تعریف یہ لکھی ہے کہ ایک معتدل قد والا آدمی دونوں ہتھیلیوں کو پھیلا کر کوئی چیز اٹھائے تو وہ ایک مد ہے۔ صاحب قاموس کہتے ہیں میں نے تجربہ کرکے دیکھا تو اسے درست پایا۔ صاع چار مد کا ہوتا ہے، آپ خود تجربہ کرکے دیکھ لیں، ایک مد میں گندم آدھ کلو سے زیادہ نہیں آتی، ظاہر ہے دوسری اجناس کا وزن مختلف ہو گا۔ یعنی ہر دو مد غلے ( یعنی ایک کلو) کے بدلے میں ایک روزہ رکھے۔ جیسا کہ سورۂ بقرہ کی آیت (۱۹۶) میں مذکور کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، جو صحیح بخاری (۴۵۱۷، ۴۱۹۱، ۵۹۱۶) میں آئی ہے۔ 6۔ عَفَا اللّٰهُ عَمَّا سَلَفَ: یعنی زمانۂ جاہلیت میں یا اس حکم کے آنے سے پہلے احرام کی حالت میں جو شکار تم کر چکے ہو اسے اللہ تعالیٰ نے معاف فرمادیا، اب اس کا بدلہ دینا ضروری نہیں۔