يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
اے ایمان والو ! شراب، جوا، بتوں کے تھان اور جوے کے تیرے (٦٢) یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں، لہذا ان سے بچو، تاکہ تمہیں فلاح حاصل ہو۔
1۔ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَيْسِرُ ....: یہ شراب کے سلسلے میں تیسرا اور آخری حکم ہے، جس کے بعد وہ قطعی حرام قرار دے دی گئی، اس سے پہلے دو حکم آ چکے تھے، پہلا حکم سورۂ بقرہ (۲۱۹) میں اور دوسرا سورۂ نساء (۴۳) میں، مگر ان دونوں آیتوں میں قطعی حرمت کا ذکر نہیں تھا، اس لیے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے سورۂ بقرہ اور سورۂ نساء کی آیات نازل ہونے کے بعد کہا : ’’یا اللہ! ہمارے لیے شراب کے بارے میں واضح حکم فرما۔‘‘ آخر صریح حرمت کی یہ آیت تین مزید چیزوں کی حرمت کے ساتھ اتری۔ [نسائی، الأشربۃ، باب تحریم الخمر : ۵۵۴۲ ] 2۔ ’’ الْخَمْرُ ‘‘ کی تفسیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی، چنانچہ صحیح مسلم میں عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : (( كُلُّ مُسْكِرٍ خَمْرٌ وكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ )) ’’ہر نشہ آور چیز خمر ہے اور ہر نشہ آور حرام ہے (خواہ کسی بھی چیز سے بنی ہو)۔‘‘ [ مسلم، الأشربۃ، باب بیان أن کل مسکر خمر....: ۲۰۰۳ ] خلافت اسلامیہ کو برباد کرنے کے اسباب میں سے یہ بھی ایک بڑا سبب ہے کہ بعض علماء نے صرف انگور اور کھجور کی شراب پینے پر حد لازم قرار دی، باقی ہر نشہ آور چیز پینے پر حد ختم کر دی، خواہ وہ کسی چیز سے بنی ہو اور خواہ اس سے نشہ کیوں نہ آ جائے۔ اب جن اسلامی خلافتوں میں ام الخبائث کی کئی قسمیں پینے پر حد معاف ہو وہاں رعایا، لشکر اور خلفاء کا کیا حال ہو گا؟ 3۔ اس آیت اور اس سے اگلی آیت سے شراب اور جوئے کی حرمت سات وجہوں سے ثابت ہوتی ہے، اسی لیے اسے ’’ام الخبائث‘‘ قرار دیا گیا ہے : (1) ’’ رِجْسٌ ‘‘ گندی چیز ہے۔ (2) عمل شیطان ہے۔ (3) ’’ فَاجْتَنِبُوْهُ ‘‘ امر کا صیغہ فرض کے لیے ہوتا ہے، چنانچہ اس سے اجتناب فرض ہے، لہٰذا پینا حرام ہے۔ (4) ’’لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ ‘‘ اس کے ترک سے فلاح کی امید ہے، ورنہ نہیں۔ (5) شیطان اس کے ذریعے سے تمھارے درمیان عداوت اور بغض ڈالنا چاہتا ہے اور عداوت اور بغض پیدا کرنے والا ہر کام حرام ہے۔ (6) اور تمھیں اللہ کے ذکر اور نماز سے روکنا چاہتا ہے۔ یہ بھی اس کی حرمت کی ایک وجہ ہے۔ (7) ’’تو کیا تم باز آنے والے ہو؟‘‘ یہ سوال کی صورت میں امر ہے اور امر فرض کے لیے ہوتا ہے۔ لہٰذا صحابہ رضی اللہ عنہم نے سن کر کہا ’’اِنْتَهَيْنَا اِنْتَهَيْنَا‘‘ یعنی ہم باز آگئے، ہم باز آگئے۔ چنانچہ صحابہ نے شراب کے مٹکے توڑ دیے اور شراب گلیوں میں بہنے لگ گئی۔ اتنی صراحتوں کے باوجود کفار کے نمائندے کئی لوگ کہتے ہیں کہ قرآن میں شراب کہاں حرام ہے ؟ 4۔ ’’ الْمَيْسِرُ ‘‘ علماء نے لکھا ہے کہ جس چیز میں بھی ہار جیت پر شرط لگائی جائے وہ جوا ہے، لاٹری، قسمت کی پڑی، انعامی بانڈ، انعامی معمے، انعامی سکیمیں سب جوئے کی قسمیں ہیں۔ کئی ظالم جوئے والی سکیموں پر عمرے یا حج کا انعام رکھ کر لوگوں کو پھنساتے ہیں، یاد رکھیں حرام مال اللہ تعالیٰ قبول نہیں کرتا نہ حرام کے ساتھ کی ہوئی عبادت قبول ہے۔ انشورنش (بیمہ) سود اور جوئے کا بدترین مرکب ہے، بولی والی کمیٹی سراسر سود ہے اور شطرنج وغیرہ میں گو شرط نہ بھی لگائی جائے، پھر بھی یہ حرام ہے، کیونکہ یہ نماز سے غفلت کا سبب بنتی ہے۔