مَّا الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ إِلَّا رَسُولٌ قَدْ خَلَتْ مِن قَبْلِهِ الرُّسُلُ وَأُمُّهُ صِدِّيقَةٌ ۖ كَانَا يَأْكُلَانِ الطَّعَامَ ۗ انظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْآيَاتِ ثُمَّ انظُرْ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ
مسیح ابن مریم تو ایک رسول تھے، اس سے زیاد کچھ نہیں، ان سے پہلے (بھی) بہت سے رسول گزر چکے ہیں، اور ان کی ماں صدیقہ تھیں۔ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے (٥٠) دیکھو ! ہم ان کے سامنے کس طرح کھول کھول کر نشانیاں واضح کر رہے ہیں۔ پھر یہ بھی دیکھو کہ ان کو اوندھے منہ کہاں لے جایا جارہا ہے۔ (٥١)
1۔ مَا الْمَسِيْحُ ابْنُ مَرْيَمَ اِلَّا رَسُوْلٌ ....: مسیح علیہ السلام ایک رسول کے سوا کچھ نہیں، یعنی تم جو کچھ کہتے ہو خدا یا خدا کا بیٹا، وہ ہر گز نہیں، وہ تو صرف اﷲ کا رسول ہے۔ اسے قصرا ضافی کہتے ہیں۔ اس میں یہود کی تردید بھی ہو گئی جو معاذ اﷲ مریم اور مسیح علیہما السلام کے متعلق گستاخی کا ارتکاب کرتے رہتے تھے۔ 2۔ وَ اُمُّهٗ صِدِّيْقَةٌ: یعنی بندگی کے اعلیٰ مقام پر فائز تھیں، جو نبوت کے بعد دوسرا درجہ ہے، یعنی نہایت سچی اور اﷲ اور اس کے رسولوں کی بہت تصدیق کرنے والی تھیں۔ دیکھیے سورۂ تحریم (۱۲) اور سورۂ نساء (۶۹) وہ نبی نہیں تھیں، جیسا کہ ابن حزم وغیرہ کا خیال ہے، کیونکہ انبیاء رجال (مردوں) ہی سے ہوئے ہیں۔ دیکھیے یوسف(۱۰۹)، نحل (۴۳) اور انبیاء (۷) ابو الحسن اشعری نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ (ابن کثیر) یعنی مریم علیہا السلام خدا تو کجا نبیہ بھی نہیں تھیں، یاں! صدیقہ ضرور تھیں۔ 3۔ كَانَا يَاْكُلٰنِ الطَّعَامَ: یعنی وہ دونوں عام انسانوں جیسے انسان تھے، ان میں وہ تمام بشری خصوصیتیں اور ضروریات پائی جاتی تھیں جو دوسرے انسانوں میں ہیں۔ اﷲ تعالیٰ کا کلام نہایت ہی نفیس اور بلیغ ہے۔ کھانا کھانے کا لازمی نتیجہ قضائے حاجت ہے، مگر اﷲ تعالیٰ نے یہ لفظ استعمال نہیں کیا، صرف یہ کہہ دیا کہ وہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔ اب کھانا کھانے سے جتنی چیزوں کا انسان محتاج ہوتا ہے ان کے ہوتے ہوئے اسے خدا یا اس کی بیوی یا اس کا بیٹا قرار دینا کتنی بڑی جہالت اور ظلم ہے۔ جو خود محتاج ہو وہ دوسروں کی حاجت کیا پوری کرے گا!؟ 4۔ اُنْظُرْ كَيْفَ نُبَيِّنُ لَهُمُ الْاٰيٰتِ ....:یعنی توحید کے اتنے صاف بیان اور تثلیث کی اتنی واضح تردید کے باوجود وہ اپنے گروہی تعصب کی بنا پر اپنے غلط عقیدے سے چمٹے رہیں تو چمٹے رہیں، ورنہ کوئی عقلی یا نقلی دلیل ان کے پاس نہیں ہے جس کے بودے پن کو ’’دو اور دو چار‘‘ کی طرح واضح نہ کردیا گیا ہو۔ (ابن کثیر)