سورة المآئدہ - آیت 66

وَلَوْ أَنَّهُمْ أَقَامُوا التَّوْرَاةَ وَالْإِنجِيلَ وَمَا أُنزِلَ إِلَيْهِم مِّن رَّبِّهِمْ لَأَكَلُوا مِن فَوْقِهِمْ وَمِن تَحْتِ أَرْجُلِهِم ۚ مِّنْهُمْ أُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ ۖ وَكَثِيرٌ مِّنْهُمْ سَاءَ مَا يَعْمَلُونَ

ترجمہ ترجمان القرآن - مولانا ابوالکلام آزاد

اور اگر وہ تورات اور انجیل اور جو کتاب (اب) ان کے پاس ان کے رب کی طرف سے بھیجی گئی ہے اس کی ٹھیک ٹھیک پابندی کرتے تو وہ اپنے اوپر اور اپنے پاؤں کے نیچے ہر طرف سے (اللہ کا رزق) کھاتے۔ (اگرچہ) ان میں ایک جماعت راہ راست پر چلنے والی بھی ہے، مگر ان میں سے بہت سے لوگ ایسے ہی ہیں کہ ان کے اعمال خراب ہیں۔

تفسیر القرآن کریم (تفسیر عبدالسلام بھٹوی) - حافظ عبدالسلام بن محمد

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَ الْاِنْجِيْلَ: تورات و انجیل کی پابندی کرنے کا مطلب دوسرے احکام و حدود کی پابندی کے ساتھ ساتھ محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا بھی ہے، کیونکہ دونوں کتابوں میں اس کا حکم موجود ہے۔ ’’وَ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ ‘‘ سے مراد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والا قرآن اور آپ کی سنت ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’جو شخص اہل کتاب میں سے ہو، اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لائے تو اس کے لیے دگنا ثواب ہے۔‘‘ [ بخاری، العلم، باب تعلیم الرجل أمتہ و أھلہ : ۹۷ ] لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَ مِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ: یعنی آسمان بابرکت بارشیں برساتا، زمین سے کھیتی اور دوسرے خزانوں کی فراوانی ہو جاتی اور انھیں روزی کمانے کے سلسلے میں کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑتا، جیسا کہ سورۂ اعراف میں صرف اہل کتاب ہی نہیں ہر قوم اور آبادی کے لیے ایمان اور تقویٰ کی صورت میں یہی بشارت دی گئی ہے، فرمایا : ﴿وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَيْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ ﴾ [ الأعراف : ۹۶ ] ’’اور اگر واقعی بستیوں والے ایمان لے آتے اور بچ کر چلتے تو ہم ضرور ان پر آسمان اور زمین سے بہت سی برکتیں کھول دیتے۔‘‘ اب مسلمان بھی اگر یہ نعمت حاصل کرنا چاہیں تو اس کا طریقہ ایمان اور تقویٰ ہے، کفار سے بھیک مانگنا اور ان کے کفریہ طریقے اختیار کرنا نہیں۔ مِنْهُمْ اُمَّةٌ مُّقْتَصِدَةٌ: یعنی افراط و تفریط ( زیادتی اور کمی) سے بچ کر در میانے راستے پر چلنے والے ہیں۔ ان سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو مسلمان ہو گئے تھے، جیسے عبد اﷲ بن سلام رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی۔ وَ كَثِيْرٌ مِّنْهُمْ سَآءَ مَا يَعْمَلُوْنَ: اس سے مراد بقیہ یہودی ہیں جو ایمان نہیں لائے۔